1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما، روحانی کو یکساں سیاسی مسئلے کا سامنا

عصمت جبیں7 نومبر 2013

امریکا اور ایران کے مابین بد اعتمادی عشروں پرانی ہے لیکن صدر اوباما اور صدر روحانی کو اس وقت تجربہ کار سیاستدانوں اور سخت گیر حلقوں کی طرف سے خاصے دباؤ کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1ADk7
تصویر: Isna

جینیوا میں ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں آج جمعرات سے شروع ہونے والے نئے بین الاقوامی مذاکرات کی خاص بات وہ گہرے شبہات ہیں جو دونوں طرف پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے اطراف کے مذاکراتی نمائندوں کے پاس کچھ کر سکنے کی سیاسی گنجائش کم ہو گی۔ کسی ڈیل کے حوالے سے امید کی کرن ایرانی اور امریکی صدور کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی مکالمت کے بعد پیدا ہوئی۔ اس تناظر میں ایرانی صدر حسن روحانی اور امریکی صدر باراک اوباما دونوں کو ہی اپنے اپنے ملکوں میں تجربہ کار سیاستدانوں اور سخت گیر سوچ کے حامل سیاسی عناصر کی طرف سے اس دباؤ کا سامنا ہے۔ امریکی سخت گیر حلقے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام سے متعلق تہران اور واشنگٹن کے مابین کسی تاریخ ساز معاہدے کی صورت میں کم از کم رعایتیں دی جائیں۔

US Präsident Barack Obama 17.10.2013
حسن روحانی اور اوباما دونوں کو ہی اپنے اپنے ملکوں میں سخت گیر سوچ کے حامل سیاسی عناصر کی طرف سے اس دباؤ کا سامنا ہےتصویر: Reuters

واشنگٹن میں قومی سلامتی کے شعبے کے قدامت پسند حلقہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی طرح ایران کی موجودہ پرکشش سفارت کاری کو اسی طرح شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ان قدامت پسندوں کی خواہش ہے کہ امریکا کو جنیوا مذاکرات میں ایران کی طرف سے رعایتوں کے کسی بھی مطالبے کو رد کرتے ہوئے زیادہ سخت رویہ اپنانا چاہیے۔ اسی طرح تہران میں حسن روحانی کو منصب صدارت سنبھالنے کے بعد عارضی طور پر خاموش مذہبی اور سیاسی قدامت پسند امریکا کے ساتھ مذاکرات کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ ایرانی قدامت پسند امریکا کو عام طور پر ‘بڑا شیطان‘ قرار دیتے ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹیٹیوٹ کی ایک ماہر سُوزن میلونی کہتی ہیں کہ ان حالات میں یہ بالکل ممکن ہے کہ فریقین سیاسی تحفظات رکھ کر مذاکراتی عمل میں شریک ہوں اور اس سے یہ پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ میلونی کے خیال میں اس سلسلے میں امریکا اور ایران دونوں کو ایسے سیاسی تفکرات سے بچ کر مذاکرات میں شرکت کرنا ہو گی۔

باراک اوباما کے لیے فوجی طاقت استعمال کیے بغیر تہران کے ایٹمی پروگرام کو ناکارہ بنا دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ اوباما اپنے پیچھے کامیاب خارجہ پالیسی کی ایک شاندار مثال چھوڑیں گے۔ ایران کی داخلی سیاست پر نظر رکھنے والے تبصرہ نگاروں کو بھی یقین ہے کہ تہران اپنے جوہری پروگرام سے متعلق ان زیادہ سے زیادہ مطالبوں پر اتفاق نہیں کرے گا، جن کی اسرائیلی حکومت اور چند امریکی وکالت کرتے ہیں۔

Hassan Rohani Rückkehr aus New York in Teheran Iran
ایرانی صدر کوئی بڑی سیاسی چال چلنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کے سیاسی اختیارات بہت محدود ہیںتصویر: Tasnim

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں کتنی ہی تباہ کن کیوں نہ ہوں، مذاکرات کی میز پر امریکی نمائندے کتنے ہی ثابت قدم کیوں نہ ہوں اور ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکی کتنی ہی قابل اعتماد کیوں نہ ہو، ایران کسی طور پر بھی زیادہ سے زیادہ مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گا بلکہ وقت آنے پر کچھ لو اور کچھ دو کی سوچ پر عمل کرنا چاہے گا۔

اس بات کا امکان کم ہے کہ ایرانی صدر کوئی بڑی سیاسی چال چلنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کے سیاسی اختیارات بہت محدود ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ستمبر میں صدر روحانی نے اقوام متحدہ کے اپنے دورے کے موقع پر باراک اوباما کے ساتھ ملاقات سے تو بڑی عقلمندی سے پرہیز کیا لیکن انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو بہرحال کی تھی۔ اس پس منظر میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے گزشتہ اتوار کو کیا جانے والا یہ تبصرہ بھی بہت اہم اور معنی خیز ہے کہ بات چیت کرنے سے تو ایران کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ تاہم ساتھ ہی خامنہ ای نے خبردار کیا کہ وہ پرامید نہیں ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں