1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کے ساتھ تعلقات میں بہتری، مگر سخت پابندیاں بھی

3 اکتوبر 2013

امریکا میں ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس قانون سازوں نے صدر باراک اوباما کی ایران کے حوالے سے حکمتِ عملی کی حمایت کی ہے، تاہم ساتھ ہی ایران کو عالمی سطح پر مزید تنہا کرنے کے لیے نئی پابندیوں کا مسودہ بھی مرتب کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/19t6k
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق گزشتہ ہفتے امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے ایرانی صدر حسن روحانی کو کی جانے والی ٹیلی فون کال سنگ میل تھی۔ دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان گزشتہ تیس برسوں میں براہ راست گفتگو کا یہ پہلا موقع تھا۔ اوباما کے پیش رو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کسی دور میں ایران کو عراق اور شمالی کوریا کی طرح ’شیطانیت کا محور‘ قرار دیا تھا، تاہم اب تعلقات پر جمی یہ برف پگھلتی جا رہی ہے۔

دوسری جانب امریکا اور ایران کے درمیان بات چیت کے اس آغاز کے وجہ سے واشنگٹن انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں قدرے تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ایرانی صدر حسن روحانی کے اقدامات کو ’صرف اچھا دِکھنے والا قدم‘ قرار دیا۔ تہران حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی ہے اور اب تک اسرائیل مخالف جنگجو گروپوں حزب اللہ اور حماس کی امداد کرتی آئی ہے۔

Mohammed Dschawad Sarif und John Kerry
دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ اعلیٰ سطحی رابطے ہوئے ہیںتصویر: Stan Honda/AFP/Getty Images

تاہم ایک ایسے موقع پر جب اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر ایران کے حوالے سے اپنے سخت موقف کا اعادہ کیا ہے، واشنگٹن میں ایران کے حوالے سے قدرے نرمی دیکھی جا رہی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ بات چیت دیکھ بھال کر کریں گے۔

تاہم خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، اس تمام پیش رفت کے باوجود امریکی قانون ساز ایران کے خلاف سخت ترین پابندیوں کے ایک نئے مسودے پر کام کر رہے ہیں۔ اس مسودے کا مقصد یہ ہے کہ ایران مذاکرات کرتے ہوئے یہ محسوس کرے کہ اگر مذاکرات بامعنی نہ ہوئے تو اسے مزید عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ابھی جولائی ہی میں امریکی ایوانِ نمائندگان نے ایرانی تیل اور دیگر صنعتوں کو نئی پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ ان تازہ پابندیوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کو ایران میں کان کنی اور تعمیراتی صنعت سے تعاون کی صورت میں بلیک لسٹ قرار دینے کی سزا رکھی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگر یہ پابندیاں لاگو رہیں تو سن 2015 تک ایرانی تیل کی برآمدات ختم ہو جائیں گی۔ تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نئی پابندیوں کے کسی بھی مسودے کو نومبر سے پہلے حتمی شکل دیے جانے کا امکان نہیں ہے، کیوں کہ امریکی قانون ساز واشنگٹن حکومت کو چند ہفتے دینا چاہتے ہیں تا کہ ایران کے حوالے سے صورت حال مزید واضح ہو سکے۔