1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور سعودی عرب کی دوستی کا ایک مشکل دور

کرسٹن کنپ/ کشور مصطفیٰ6 نومبر 2013

مشرق وسطیٰ کی موجودہ سیاسی صورتحال سعودی عرب کے لیے بہت زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ اس کا اندازہ حالیہ دنوں میں ریاض حکومت کے روایتی حلیف امریکا کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی سے ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1AD6A
تصویر: Reuters

سعودی عرب اور امریکا کا ایک دوسرے پر انحصار بہت زیادہ ہے چنانچہ نہ تو واشنگٹن نہ ہی ریاض دیرینہ دوستانہ تعلقات میں خرابی پیدا ہوتے دیکھ سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا گزشتہ پیر کو سعودی عرب کا دورہ اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری پیر کو سعودی دارالحکومت ریاض میں تھے۔ اُن کے اس دورے کا مقصد سعودی حکام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش تھا جس کی وجہ امریکا کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی ہے۔

ریاض حکومت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ سعودی حکام محسوس کر رہے ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے اپنے عرب اتحادیوں کی باتوں پر کان دھرنا چھوڑ دیا ہے۔ خاص طور سے شام کے بحران اور ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے معاملے میں۔ سعودی عرب کسی صورت یہ نہیں چاہتا کہ اُس کا سب سے بڑا حریف ’ایران‘ مشرق وسطیٰ کے خطے میں اپنا تسلط یا بالا دستی قائم کر لے۔

Iran Uran Mine in Sagand
ایران کا ایٹمی پروگرام مغرب سمیت عرب ریاستوں کے لیے بھی تشویش کا باعثتصویر: picture-alliance/dpa

مشرق وسطیٰ کے خطے میں ایرن کا تسلط، ایک خطرہ

جان کیری نے سعودی حکام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ امریکا بھی بشارالاسد کی قیادت والی شامی حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے اور یہ کہ ایران کے ایٹمی پروگرم کے بارے میں تہران کے ساتھ مذاکرات میں سعودی عرب کو شانہ بشانہ شریک رکھا جائے گا۔ کیری کا کہنا تھا،" ہمارے تعلقات اسٹریٹیجک ہیں، دیر پا ۔ جبکہ کیری سے ملاقات کے بعد سعودی وزیر خارجہ پرنس سعود الفیصل نے کہا،" ہماری پالیسیوں میں اتفاق اور اختلاف دونوں کا ہونا ایک فطری بات ہے" ۔

مشرق وسطیٰ اور عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا ماننا ہے کہ جان کیری کی تمام تر یقین دہانی کے باوجود سعودی عرب کا امریکا پر سے اعتماد اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔ جینیوا اور جدہ دونوں جگہ قائم ’گلف ’ریسرچ سینڑرسے منسلک ایک تجزیہ کار مصطفیٰ اعلانی کے بقول،" سعودی حکام امریکا کی یقین دہانیوں کے قائل نظر نہیں آ رہے۔ انہوں نے جان کیری کا خیر مقدم ضرور کیا تاہم بات چیت ادھوری ہی رہی" ۔

Syrien Aleppo Gas Öl Geschäft Explosion Feuer Brand
شام کی خانہ جنگی سے سعودی عرب خائفتصویر: Reuters

سعودی عرب کی ناراضگی امریکا کو مہنگی پڑ سکتی ہے

کیری کا سعودی عرب کا بلاتاخیر دورہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکا بھی اس سلسلے میں فکر مند ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اختلافات کی صورت میں واشنگٹن کے مشرق وسطی کی دیگر ریاستوں کےساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں حالانکہ امریکا کا اس خطے سے جو بنیادی مقاصد وابستہ ہیں وہ محفوظ ہیں۔ یعنی تیل کی سپلائی اور القاعدہ کے خلاف جنگ، ان دونوں پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

اسی قسم کے خیالات کا اظہار دُبئی میں قائم گلف ریسرچ سینٹر کے انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر کرسٹیان کوُخ نے بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،

" ریاض حکام اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ اگر شام کی خانہ جنگی ایک دو سال تک جاری رہی تو یہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس کے سنگین نتائج سعودی بادشاہت پر بھی مرتب ہوں گے" ۔

زیادہ تر ماہرین کا یہ خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت اور تسلط کی جنگ اس لیے بھی خوفناک نتائج کا باعث بن سکتی ہے کہ مذہبی اختلافات، فرقہ ورانہ احساسات اور انتہا پسندی اس خطے میں شیعہ سُنی تفرقہ مزید خونریز شکل اختیار کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ایران کی ایٹمی طاقت نہ صرف اسرائیل بلکہ تمام سُنی عرب ریاستوں کی نگاہوں میں کھٹکتی ہے۔