ایران کے ساتھ سفارت کاری کو پرکھنا ہو گا، اوباما
1 اکتوبر 2013باراک اوباما نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایران کو قابلِ تصدیق اقدامات کرنے چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے محض باتوں سے نہیں بلکہ عملی طور پر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی پوزیشن میں نہیں اور بین الاقوامی ضابطے پورے کر رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ باتیں پوری کرنے پر ایران کو جوہری توانائی کا ’پرُامن‘ سویلین پروگرام جاری رکھنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
امریکی صدر نے کہا کہ سفارت کاری کو پرکھنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا: ’’لیکن ہم کھلی آنکھوں سے مذاکرات شروع کریں گے۔ یہ مرحلہ آسان نہیں ہوگا اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ کریں اس کے لیے اعلیٰ سطحی تصدیق درکار ہو گی تاکہ ہم پابندیوں میں اس طرح نرمی کر سکیں جس کی میرے خیال میں وہ خواہش رکھتے ہیں۔‘‘
نیتن یاہو نے خبردار کیا کہ تہران حکومت پر پابندیاں نہ صرف برقرار رہنی چاہییں بلکہ ضرورت پڑنے پر مزید سخت کی جانی چاہییں۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ سفارت کاری کے نتیجے میں ایران کے ’عسکری جوہری پروگرام‘ کا خاتمہ اسرائیل کو قابلِ قبول واحد حل ہو گا۔
امریکا کے اس دورے سے قبل اسرائیلی رہنما نے خبردار کیا تھا کہ وہ اوباما کے ساتھ ملاقات میں تہران کی جانب سے سامنے آنے والی ’میٹھی باتوں‘ کے خلاف بات کریں گے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق باراک اوباما کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے موقع پر نیتن یاہو نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے دونوں رہنماؤں کے درمیان ماضی میں پائی جانے والی کشیدگی میں کمی کا اشارہ ملتا ہو۔
اوباما نے اسرائیلی رہنما سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس سفارت کاری کو قبول کرنے کے لیے ایران کی مرضی کو ایک موقع دینے کے لیے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ایران اسرائیل کی تباہی چاہتا ہے اور اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی اس کے قول و فعل کو پرکھا جانا چاہیے۔
وائٹ ہاؤس میں چار گھنٹے قیام کے دوران ان کا مزید کہنا تھا: ’’اصل بات یہ ہے کہ ایران اپنا عسکری جوہری پروگرام پوری طرح ختم کرے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ ایران پر اقتصادی پابندیاں برقرار رکھی جانی چاہییں۔ نیتن یاہو نے کہا: ’’بلکہ، مذاکرات کے دوران ایران اگر اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتا ہے تو پابندیاں سخت کر دی جانی چاہییں۔‘‘