1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کو جرمنی کی طرف سے ہتھیاروں کی فراہمی پر جرمن وزیر دفاع کے شکوک و شبہات

Ali Amjad13 نومبر 2012

کابل کی طرف سے جرمنی سے ہیلی کاپٹرز، طیاروں اور بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کی درخواست کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/16hrZ
تصویر: dapd

وفاقی جرمن وزیر دفاع توماس دے میزیئر نے افغانستان کی طرف سے فوجی سازوسامان کی فراہمی کے مطالبے پر جزوی شبے کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے جرمن وزیر نے آج منگل کو مزار شریف سے جرمن ٹی وی چینل ZDF کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کابل کی طرف سے جرمنی سے ہیلی کاپٹرز، طیاروں اور بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کی درخواست کی گئی ہے۔ دے میزیئر نے تاہم کہا کہ افغانستان کو ملکی سکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے تربیت یافتہ پیدل فوج کی ضرورت ہے اس سلسلے میں وہ صحیح خطوط پر چل رہا ہے۔

جرمن وزیر کے بقول سوال محض ہتھیاروں کی فراہمی کا نہیں ہے بلکہ ان کے پائیدار استعمال کا ہے۔ یعنی اس ضمن میں ایک مسئلے کا تعلق ذہنیت سے ہے۔ وہ یہ کہ اس ملک میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک فوجی گاڑی کو لے کر اس کا استعمال کیا گیا اور جب اس میں کوئی نقص آ گیا یا خرابی پیدا ہو گئی تو کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا کیا کیا جائے۔ مطلب یہ کہ یہ انصرامی نوعیت کا اہم مسئلہ ہے، ہتھیاروں اور گاڑیوں کی دیکھ بھال اور مرمت کا۔ اس لیے افغانستان کو ہتھیاروں اور جنگی سامان کی فراہمی کوئی عقلمندانہ عمل نہیں ہے۔

Afghanistan Deutschland Verteidigungsminister de Maiziere in Kabul
جرمن وزیر دفاع اپنے افغان ہم منصب کے ساتھتصویر: dapd

جرمن وزیر دفاع گزشتہ روز یعنی پیر سے افغانستان میں ہیں۔ جہاں انہوں نے سب سے پہلے مزار شریف میں بین الاقوامی فوج کے سب سے بڑے اڈے کا دورہ کیا۔ ماہرین و مبصرین کا کہنا ہے کہ جرمن وزیر کے اس دورے کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جنگ سے تباہ حال یہ ملک اب امن و سلامتی کے اعتبار سے بہتری کی طرف گامزن ہے۔ ایک سول طیارے میں جرمنی سے سیدھا مزار شریف پہنچنے اور کابل میں کسی طرح کے غیر معمولی سکیورٹی اقدامات کے بغیر نقل و حرکت کے ذریعے جرمن وزیر دفاع کیا پیغام دینا چاہتے تھے، اس بارے میں جب صحافیوں نے ان سے سوال کیا تو دے میزیئر نے کہا،’ میں یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال کسی حد تک بہتر ہوئی ہے اور یہ کہ ہم اب یہاں تک پہنچنے کے لیے ازبکستان Termes کے روٹ پر انحصار نہیں کر رہے اور میں یہ چاہتا تھا کہ میں ہی یہ سب سے پہلے ثابت کروں‘۔

Afghanistan Präsidentenpalast in Kabul
کابل میں قائم صدارتی محلتصویر: AP

جرمن وزیر کے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں دیے گئے جب آج افغانستان میں دارالحکومت کابل سے طالبان فورسز کی پسپائی کی گیارہویں سالگرہ کے موقع پر صدارتی محل اور کابل کے انٹر نیشنل ہوائی اڈے پر راکٹ حملے ہوئے جن کے نتیجے میں ایک فرد کے ہلاک اور کم از کم تین دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ سخت گیر موقف رکھنے والے مجاہدین نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور طالبان نے آج اپنے ویب سائٹ پیغام میں کہا ہے کہ ان میں سے دو راکٹ کابل کے ہوائی اڈے کے نزدیک گرے ہیں تاہم اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ پولیس کے مطابق شمال مغربی کوہستانی علاقوں سے آج چار راکٹ داغے گئے۔

D.Hayali,km/aa

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں