طالبان قیادت کے کہنے پر مذاکرات میں شرکت ممکن، حقانی گروپ
13 نومبر 2012یہ بات پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے خبر ایجنسی روئٹرز کی طرف سے آج منگل کو ملنے والی رپورٹوں میں کہی گئی ہے۔ روئٹرز کے مطابق حقانی گروپ افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کا سب سے ہلاکت خیز کارروائیاں کرنے والا گروپ ہے۔ حقانی گروپ صرف افغان طالبان کے مرکزی رہنماؤں کے کہنے پر ہی امریکا کے ساتھ کسی مذاکراتی عمل میں شامل ہو گا، یہ بات آج اس گروپ کے ایک اعلیٰ کمانڈر نے روئٹرز کو بتائی۔
حقانی گروپ کے اس کمانڈر نے امریکا کے ساتھ امن بات چیت کے حوالے سے جس لچکدار سوچ کا اظہار کیا، وہ بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ تاہم ساتھ ہی اس گروپ کی طرف سے تنبیہ بھی کر دی گئی۔
حقانی گروپ کے اس کمانڈر کے بقول افغانستان میں مغربی فوجی دستوں کے حوالے سے اہم اہداف پر حملے بھی جاری رہیں گے ۔ طالبان کے اس کمانڈر نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اتحادی فوجوں پر حملوں کی صورت میں دباؤ قائم رہے اور افغانستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کی کوششیں بھی جاری رہیں۔
حقانی گروپ زیادہ تر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی قبائلی علاقوں سے اپنی کارروائیاں کرتا ہے۔ اس عسکریت پسند گروپ کے مطابق وہ افغان طالبان کی تحریک کا حصہ ہے اور قیام امن کے لیے کسی بھی مذاکراتی عمل میں طالبان کی قیادت کے ساتھ اتفاق رائے کے ساتھ ہی شامل ہو گا۔ حقانی گروپ کے اس کمانڈر نے یہ بات روئٹرز کو ایک نامعلوم جگہ سے ٹیلی فون پر گفتگو میں بتائی۔
حقانی گروپ کے اس کمانڈر نے امریکا پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ اپنی امن کوششوں میں مخلص نہیں ہے۔ اس کمانڈر کے بقول امریکا افغانستان میں طالبان تحریک اور اس کے حقانی گروپ میں پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ حقانی گروپ کے اس اعلیٰ کمانڈر نے کہا، ’اگر ملا محمد عمر کی سربراہی میں افغان طالبان کی مرکزی شوریٰ امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کا فیصلہ کرتی ہے، تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے‘۔
امریکا نے ستمبر میں طالبان کے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے دیا تھا۔ اس بارے میں اس گروپ کے کمانڈر نے کہا کہ یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ واشنگٹن افغانستان میں امن کوششوں کے سلسلے میں مخلص نہیں ہے۔
طالبان کے اس کمانڈر نے کہا کہ حقانی گروپ خوش ہے کہ امریکا میں باراک اوباما دوبارہ صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی اس عسکریت پسند رہنما نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ باراک اوباما میدان جنگ میں نقصانات کی وجہ سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کو توقع سے پہلے واپس بلا لیں گے۔
افغان طالبان نے اس سال مارچ میں کہا تھا کہ انہوں نے امریکا کے ساتھ اپنی امن بات چیت بہت ابتدائی مرحلے میں ہی معطل کر دی ہے۔ کابل حکومت کے ایک سینئر اہلکار کے بقول طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے کوئی بڑی پیش رفت اب 2014ء سے پہلے متوقع نہیں ہے۔
(ij / km (Reuters