1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان امن مذاکرات، ’طالبان کے بغیر بے سود‘

13 نومبر 2012

افغانستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد اپنے ملک میں قیام امن کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔ مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کو امن عمل میں شامل کیے بغیر یہ مذاکرات کچھ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو سکتے۔

https://p.dw.com/p/16haW
تصویر: dapd

افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے چیئرمین صلاح الدین ربانی کی سرپرستی میں پاکستان کا تین روزہ دورہ کرنے والا یہ وفد اس دوران پاکستانی سیاسی قیادت کے علاوہ متوقع طور پر فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی تبادلہء خیال کرے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے پیر کے دن اس وفد سے ملاقات کی۔ بعد ازاں ان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس دورے کے باعث دونوں ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات میں قربت پیدا ہو گی۔ بیان کے مطابق، ’’پاکستان میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو مل کر اس خطے میں قیام امن کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘‘

Raja Pervez Ashraf Proteste in Pakistan
پاکستانی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرفتصویر: DW/Shakoor Raheem

پاکستان ایک اہم فریق

افغانستان میں 1996ء تا 2001ء تک طالبان کی حکومت قائم رہی، اس دوران طالبان کے لیے اسلام آباد حکومت کی مبینہ مدد کی وجہ سے عام خیال کیا جاتا ہے کہ 2014ء میں افغانستان میں نیٹو جنگی مشن کے خاتمے کے بعد وہاں قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

واشنگٹن حکومت متعدد بار کہہ چکی ہے کہ اب بھی پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور افغان طالبان کے مابین مبینہ روابط پائے جاتے ہیں۔ کابل حکومت بھی پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔

معروف سکیورٹی تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ افغان وفد کے اس مخصوص دورے سے کوئی توقع نہیں لگائی جا سکتی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں ہے۔ حتی کہ صلاح الدین ربانی جب سے افغان امن کونسل کے سربراہ بنائے گئے ہیں، تب سے وہ بھی طالبان سے کوئی رابطہ نہیں کر سکیں ہیں‘‘۔

Salahuddin Rabbani
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے چیئرمین صلاح الدین ربانیتصویر: picture-alliance/dpa

رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں کوئی نتیجہ کیسے برآمد ہو سکتا ہے، جب کونسل کے طالبان کے ساتھ روابط ہی نہ ہوں۔ ان کے بقول اگرچہ پاکستان کے طالبان کے ساتھ کچھ تعلقات ہیں تاہم یہ غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آباد حکومت طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے راضی کر سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں امریکا کی طرف سے اعتماد سازی کی کوششیں ناگزیر ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار حسن عسکری کہتے ہیں کہ امریکا طالبان کے کچھ دھڑوں کے ساتھ سمجھوتے کے لیے تیار ہے لیکن انتہا پسند عناصر مذاکرات میں بہت ہی کم دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نیٹو فوجی مشن کے ختم ہونے میں صرف دو برس ہی رہ گئے ہیں اور اس کے بعد وہ کابل حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں گے۔

( ab /ai (AFP