1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ: جمہوریت نواز کارکنان بغاوت کے مجرم قرار

30 مئی 2024

ہانگ کانگ کی عدالت نے جمہوریت نواز چودہ کارکنوں کو بغاوت کا مجرم قرار دیا ہے، تاہم قومی سلامتی سے متعلق اسی کیس کے دو ملزمین کو بری کر دیا گیا۔ بغاوت کے مقدمے میں قصورواروں کو عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4gRLD
ہانگ کانگ کی ہائی کورٹ
بین الاقوامی سطح پر اس مقدمے کو بہت قریب سے دیکھا جا رہا تھا، جس میں امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے کئی سفارت کاروں نے بھی عدالتی کارروائی میں شرکت کیتصویر: Tyrone Siu/REUTERS

جمعرات کے روز ہانگ کانگ کی ہائی کورٹ نے چین کی جانب سے نافذ کردہ قومی سلامتی کے سخت قانون کے تحت جمہوریت نواز 14 کارکنوں کو بغاوت کا مجرم قرار دیا۔ یہ اپنی نوعیت کا ایسا تاریخی کیس تھا کہ جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ 

ہانگ کانگ: قومی سلامتی قوانین کو سخت کرنے پر زور

عدالت نے جن افراد کو قصوروار ٹھہرایا ہے، اس میں سابق قانون ساز لیونگ کوک ہنگ، لام چیوک ٹنگ، ہیلینا وونگ اور ریمنڈ چان جیسے سرکردہ کارکن شامل ہیں۔ البتہ دو سابق ڈسٹرکٹ کونسلرز لی یو شون اور لارنس لاؤ کو بری کر دیا گیا ہے۔

ہانگ کانگ میں سخت پابندیوں کے تحت مظاہرین کی واپسی

سن 2021 میں، ہانگ کانگ47 کے نام سے معروف، مظاہرین اور کارکنوں کے خلاف قومی سلامتی کے قانون کے تحت ''بغاوت کرنے کی سازش'' کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

چین کا کل سے دوبارہ ہر طرح کے ویزوں کے اجرا کا فیصلہ

جمہوریت نواز ہانگ کانگ 47 گروپ کے دیگر 31 مدعا علیہان نے اعتراف جرم کر لیا تھا جبکہ 16 نے اپنے آپ کو بے گناہ بتا کر مقدمے کا سامنا کیا۔ جمعرات کے روز عدالت نے ان میں سے چودہ کو مجرم قرار دیا جبکہ دو کو بری کر دیا۔ 

ہانگ کانگ: صحافیوں کی یونین کے رہنما رونسن چان کو گرفتار کر لیا گیا

جن لوگوں نے اعتراف جرم کیا تھا، یا جنہیں مجرم قرار دیا گیا ہے، انہیں عمر قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سزا رواں برس کے اواخر تک سنائے جانے کی توقع ہے۔

جج نے کیا کہا؟

جج اینڈریو چان نے ان تمام 14 مدعا علیہان کے نام بتائے، جو عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے فیصلے کے مطابق مجرم پائے گئے۔ کارکن اوون چو اور گیوینتھ ہو سمیت کئی مدعا علیہان  فیصلہ سنائے جانے کے وقت بالکل پتھر کی طرح ساکت نظر آئے۔

عدالت کے باہر جمہوریت کے حامی
ہانگ کانگ میں مدعا علیہان کے حامیوں نے کمرہ عدالت میں رہنے کے لیے راتوں رات قطار میں کھڑے رہے، جن کا کہنا تھا کہ یہ ہانگ کانگ کے لیے ایک نازک مرحلہ ہےتصویر: Chan Long Hei/AP/picture alliance

فیصلے میں کہا گیا کہ تمام 14 نے ''حکومت اور چیف ایگزیکٹو دونوں کی طاقت اور اختیار کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ہمارے خیال میں... اس سے ہانگ کانگ کے لیے آئینی بحران پیدا ہو سکتا تھا۔''

ہانگ کانگ، چین سپردگی کے پچیس سال مکمل

فوری طور پر یہ واضح نہیں تھا کہ آیا وہ اعلی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے کیونکہ عدالت نے سماعت دوپہر کے سیشن تک ملتوی کر دی۔

چین میں پریس کی آزادی مسلسل زوال پذیر، رپورٹ

مارچ 2021 میں پہلی بار عدالت میں پیش کیے جانے کے بعد سے ہی بیشتر ملزمان جیل میں ہیں۔

مقدمے کی سماعت جیوری کے بغیر کی گئی اور ججوں کا انتخاب ہانگ کانگ کے رہنما جان لی نے کیا تھا۔

اس موقع پر خبر رساں ادارے روئٹرز نے 68 سالہ لیونگ کی اہلیہ سے بات کی، جو سب سے عمر دراز ملزم ہیں۔'' ان کا کہنا تھا، ''اگرچہ وہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہیں، پھر بھی جیل کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ انہوں نے ہمیشہ مجھ سے یہی کہا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔''

ہانگ کانگ: پولیس نے چھ صحافیوں کو حراست میں لے لیا

اس مقدمے کے ان 31 ملزمان، جنہوں نے جرم قبول کر لیا تھا، انہوں نے قدر نرم سزا کی امید میں ایسا کیا تھا۔

کیس پر گہری نظر تھی

بین الاقوامی سطح پر اس مقدمے کو بہت قریب سے دیکھا جا رہا تھا، جس میں امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے کئی سفارت کاروں نے بھی عدالتی کارروائی میں شرکت کی۔

ان ممالک نے اس مقدمے کو سیاسی طور پر محرک قرار دیتے ہوئے، اس پر تنقید کی اور ملزمان کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

ہانگ کانگ میں مدعا علیہان کے حامیوں نے کمرہ عدالت میں رہنے کے لیے راتوں رات قطار میں کھڑے رہے۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا: ''میں آیا ہوں کیونکہ یہ (ہانگ کانگ کے لیے) ایک نازک مرحلہ اور تاریخی لمحہ ہے۔ وہ سب اپنے اور ہانگ کانگ کے لوگوں کے لیے،

 تبدیلی لانے کی امید میں کھڑے ہوئے۔''

الزامات کا تعلق کس واقعے سے ہے؟

سن 2019 میں جب چین نے ہانگ کانگ میں قومی سلامتی سے متعلق اپنے قانون کا نفاذ کیا، تو شہر میں بڑے پیمانے پر جمہوریت نواز مظاہرے پھوٹ پڑے۔ جمہوریت نواز کارکنان کا کہنا تھا کہ یہ قانون ان کی ان آزادیوں کی خلاف ورزی ہو گا، جس کی ضمانت اس وقت دی گئی تھی جب ہانگ کانگ کو سن 1997 میں برطانیہ نے چین کے حوالے کیا تھا۔

ان الزامات کا تعلق جولائی 2020 میں ایک غیر سرکاری انتخابی ووٹ سے ہے۔ استغاثہ نے کارکنان کی اس کارروائی کو حکومت کو مفلوج کرنے کے لیے ایک ''شیطانی سازش'' قرار دیا تھا۔

جبکہ جمہوریت نوازوں کا کہنا ہے کہ یہ ہانگ کانگ کی مقننہ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے شہر بھر میں ہونے والے انتخابات کے لیے مضبوط ترین امیدواروں کو منتخب کرنے کی ایک غیر سرکاری کوشش تھی۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

چین: شی جن پنگ کی اقتدار کی سیاست