1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گیان واپی مسجد سے متعلق بھارتی آثار قدیمہ کی رپورٹ لیک

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
26 جنوری 2024

ہندو فریق کا کہنا ہے کہ بھارتی آثار قدیمہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنارس کی تاریخی 'گیان واپی مسجد کے ایک بڑے ہندو مندر کے اوپر تعمیر کیے جانے کا امکان' ہے۔ ہندو فریق نے آثار قدیمہ کی رپورٹ کو عام کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4bh7W
گیان واپی مسجد
بنارس کی گیانواپی مسجد ان متعدد مساجد میں سے ایک ہے، جس پر ہندو اپنا دعوی کرتے ہیں۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے بعد ایسے معاملات کوبڑی تیزی سے ہوا دی جا رہی ہےتصویر: Sharique Ahmad/DW

بھارتی شہر بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد سے متعلق آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (بھارتی آثار قدیمہ) کی رپورٹ کو ہندو فریق نے عام کرتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مسجد کے مقام پر پہلے ایک بڑا ہندو مندر ہو سکتا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے شاہی عید گاہ مسجد کا سروے روک دیا

مغلیہ دور میں تعمیر ہونے والی بنارس کی اس تاریخی مسجد پر بھی ہندو اپنا دعوی کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ مسجد ہندوؤں کا ایک مندر منہدم کر کے تعمیر کی گئی۔ وہ اس کے مقام پر مندر تعمیر کرنے کی مہم چلا رہے ہیں اور اس کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

مسجد یا مندر؟ تاریخی گیان واپی مسجد کے مستقبل کا فیصلہ

اس سے قبل عدالت نے آثار قدیمہ کی رپورٹ ہندو اور مسلم فریق کے حوالے کرنے کی ہدایت دی تھی، جس کے بعد اس طرح کے دعوے سامنے آئے ہیں۔ البتہ مسلم فریق نے رپورٹ کے حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

گیان واپی مسجد تنازعہ میں عدالت نے کیا حکم دیا؟

ہندو فریق نے رپورٹ کے حوالے سے کیا کہا؟

ہندو فریق کی نمائندگی کرنے والے وکیل وشنو شنکر جین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران سروے رپورٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ آثار قدیمہ کا سروے مسجد کے مقام پر ایک ''بڑے ہندو مندر کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو موجودہ ڈھانچے سے پہلے کا ہے۔''

بھارت: کیا بنارس کی گیان واپی مسجد کو بابری مسجد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟

انہوں نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آثار قدیمہ کے ''نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ستونوں اور پلاسٹر میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ انہیں دوبارہ استعمال کیا گیا اور اس طرح عمارت مسجد میں تبدیل کی گئی۔ ہندو مندر کے کچھ ستونوں کو نئے ڈھانچے میں استعمال کے لیے تھوڑا سا تبدیل کیا گیا تھا۔ ستونوں پر کنندہ نقش و نگار کو ہٹانے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔''

بنارس کی گیان واپی مسجد
برصغیر میں مسلم مغل سلطنت نے شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں گیان واپی مسجد  17ویں صدی میں ہندوؤں کے مقدس شہر وارانسی میں تعمیر کی تھیتصویر: Sharique Ahmad/DW

 وشنو شنکر جین نے دعوی کیا کہ اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایسے نوشتہ جات دریافت ہوئے ہیں، جن کا تعلق قدیم ہندو مندر سے ہے، جو دیوناگری، تیلگو، کنڑ اور دیگر رسم الخط میں تحریر کیے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا آثار قدیمہ کہ سروے کے دوران ''موجودہ اور پہلے سے موجود ڈھانچے میں کئی نوشتہ جات دریافت ہوئے ہیں۔ موجودہ سروے کے دوران کل 34 نوشتہ جات ریکارڈ کیے گئے۔''

ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کر دیا گیا

ان کا کہنا تھا، ''درحقیقت یہ پہلے سے موجود ہندو مندر کے پتھر پر نوشتہ جات ہیں جنہیں موجودہ عمارت کی تعمیر اور مرمت کے دوران دوبارہ استعمال کیا گیا۔ اس ڈھانچے میں پہلے کے نوشتہ جات کے دوبارہ استعمال سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے کے ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا تھا اور ان کے حصوں کو موجودہ ڈھانچے کی تعمیراتی مرمت میں دوبارہ استعمال کیا گیا۔''

بھارتی حزب اختلاف نے رام مندر کے افتتاح کی دعوت مسترد کیوں کی؟

شیو شنکر جین کا دعوی ہے کہ آثار قدیمہ نے اپنے سروے میں عمارت کے، ''ستونوں اور پلستروں کا مطالعہ کیا اور کہا کہ سبھی مندر کا حصہ ہیں۔''

تاریخی مساجد پر قبضے کی کوششیں

بنارس کی گیانواپی مسجد ان متعدد مساجد میں سے ایک ہے، جس پر ہندو اپنا دعوی کرتے ہیں۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے بعد ایسے معاملات کوبڑی تیزی سے ہوا دی جا رہی ہے۔

آثار قدیمہ کی یہ رپورٹ ایک ماہ قبل ایک مہر بند لفافے میں عدالت کو پیش کی گئی تھی اور پہلے اسے عدالت نے منظر عام پر لانے سے منع کر دیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ایودھیا کے رام مندر کے افتتاح کے چند دن بعد ہی اس رپورٹ کو عام کر دیا گیا۔

گیان واپی مسجد کی طرح ہی متھرا کی شاہی عید گاہ کے خلاف بھی ایسی ہی شرانگیزیوں کا آغاز ہو چکا ہے، جیسا کہ بابری مسجد کے خلاف کیا گیا تھا۔

برصغیر میں مسلم مغل سلطنت نے شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں گیان واپی مسجد  17ویں صدی میں ہندوؤں کے مقدس شہر وارانسی میں تعمیر کی تھی۔ اس شہر میں ملک بھر سے آنے والے ہندو مذہب کے پیروکار اپنے پیاروں کی لاشوں کو دریائے گنگا کے کنارے جلانے یا ان کی استھیاں اس دریا میں بہانے کا کام کرتے ہیں۔

بھارت میں یہ مسجد ان متعدد اسلامی عبادت گاہوں میں سے ایک ہے، جنہیں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے حمایت یافتہ انتہا پسند کارکن  دوبارہ سے ہندو عبادت گاہوں میں تبدیل کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے مہم چلا رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی ہندو اکثریت کے مرہون منت ملکی سیاست میں سب سے غالب طاقت بن چکی ہے اور اس صورتحال سے سخت گیر ہندو عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

سن 2014 میں جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، اس کے بعد سے ملکی قانون میں ہندو بالادستی قائم کرنے کے مطالبات میں تیزی آئی ہے، جس سے بھارت میں بسنے والے 210 ملین مسلمانوں میں اپنے مستقبل کے بارے میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے افتتاح پر مسلمانوں کی مایوسی