کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
11 نومبر 2012جہاں امریکا حالیہ تباہ کُن سمندری طوفان سینڈی کی لائی ہوئی تباہیوں اور نقصانات سے ہلکان ہو کر اب تلافی کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے وہاں عالمی میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل پانچ ملین پاکستانی اپنے ملک میں آنے والے سیلاب کے مسلسل تیسرے سال اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
دو سال قبل آنے والے پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب دنیا کی توجہ کا مرکز بنے تھے۔ اس سال پھر موسم گرما میں مون سون بارشوں کے سبب وادئ سندھ کے وسیع علاقے زیر آب آ گئے۔ پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ کو امسالہ مون سون بارشوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ملک بھر میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ گزشتہ ماہ یعنی ستمبر میں زوروں پر تھا۔ ڈھائی لاکھ پاکستانی باشندے ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ریلیف کیمپوں میں سر چھپانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اب ان میں سے ایک بڑی تعداد اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں تاہم صوبہ سندھ میں اب بھی ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد بے گھر ہیں۔ انہی میں سے ایک عبدالرزاق میرعلی بھی ہے۔
جہاں امریکا میں سینڈی سے متاثرہ ہزاروں لاکھوں باشندے اب بجلی کی فراہمی کے منتظر ہیں وہاں سندھ کے 55 سالہ باشندے میر علی کے عزائم بڑے سادہ اور معمولی ہیں۔ اے ایف پی کے نمائندہ سے باتیں کرتے ہوئے میر علی بھورے، گدلے پانی میں ڈوبے ہوئے مٹی سے بنے اپنے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے،’ دیکھیے یہ میرا گھر ہے، ہم پانی کے کم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب یہاں سے پانی ہٹ جائے گا تب ہم شاید دوبارہ اپنی زندگی کو معمول پر لا سکیں‘۔
میرعلی اور اُس کی فیملی دو ماہ سے اس انتظار میں ہے۔ ان کے گاؤں کا نام بھی ’میر علی ‘ ہی ہے، جہاں اب بھی گھٹنوں تک پانی کھڑا ہے۔ اس پانی میں موجود انسانی اور حیوانی فضلاء تمام فضا کو بُری طرح آلودہ کر چکے ہیں۔ اس سے دم گھٹنے والی بوُ پھیل رہی ہے اُس پر ستم یہ کہ پانی میں چھپے ہوئے سانپ انسانوں کو ڈسنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔
پاکستان کی اقتصادی شہ رگ، عروس البلاد کراچی سے قریب 500 کلومیٹر کے فاصلے پر سندھ کے ڈسٹرکٹ جیکب آباد میں قائم ایک عارضی کیمپ میں 80 خاندان کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ کیمپ تھوڑی اونچائی پر بنا ہوا ہے جہاں سے یہ یہ اپنے آب زدہ گھروں اور کھیتوں کو مایوس کُن نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے سیلاب متاثرین کی طرف اس سال دنیا کی بہت کم ہی توجہ رہی ہے۔ ان نہتے انسانوں کی صورتحال کو نہ تو میڈیا کی طرف سے کوئی کوریج ملی نہ ہی کسی پاپ اسٹار نے اس سال سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے کسی بینیفٹ شُو کا اہتمام کیا۔ محض غیر ملکی امدادی تنظیمیں اپنے محدود وسائل کے ساتھ سرگرم ہیں۔
ادھر امریکا کے مشرقی ساحلی علاقوں میں آنے والے سمندری طوفان سینڈی کو جس طرح عالمی میڈیا سمیت بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور اداروں کی توجہ ملی ہے اُس سے ’میرعلی‘ کے سیلاب زدگان قطعاٍ حسد محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں امریکا مخالف احساسات اکثر و بیشتر بھڑک اُٹھتے ہیں۔
میر علی سے تعلق رکھنے والا 26 سالہ غلام علی ایک کسان ہے۔ وہ کہتا ہے،’ہمیں امریکیوں سے حسد نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بہت فراخ دل لوگ ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ہماری مدد کی ہے۔ اب انہیں توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مشکل میں ہیں۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کسی طرح ہماری زندگی معمول پر لوٹ آئے‘۔
پاکستان کے اس چھوٹے سے علاقے میں شاذ و نادر ہی کوئی غیر ملکی نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نظر آنے والے ہر سفید فام اور غیر ملکی کو مقامی باشندے امریکی سمجھتے ہیں‘۔
پاکستان کی نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق امسالہ مون سون بارشوں کے سبب آنے والے طوفان نے کم از کم پانچ ملین انسانوں کو متاثر کیا ہے۔ ان میں سے تین ملین سندھ میں ہیں نیز 1.1 ایکڑ یا 450;000 ہیکٹر زمین پر پھیلی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت نے اس ہنگامی صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔
km/ij (AFP)