چوہدری پرویز الہی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟
9 ستمبر 2023اپنے بھرپور سیاسی کیرئیر میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے والےپنجابکے سابق وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی آج کل بری طرح طاقت ور حلقوں کے عتاب کا شکار ہیں۔ وہ گزشتہ چند ماہ سے عدالتوں اور مختلف حراستی مراکز کے درمیان ایک گھن چکر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف بھی اپنے قائد عمران خان کی طرح درجنوں مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ عدالتیں اگر انہیں کسی ایک مقدمے میں ضمانت پر رہائی کا پروانہ تھماتی ہیں تو دوسری جانب سرکار کسی نہ کسی اور مقدمے میں پرویز الہی کو پھر دھر لیتی ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الہی کو عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑنے کی سزا دی جا رہی ہے اور اگر وہ آج پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیں تو ان کی ساری مشکلات ختم ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف چوہدری پرویز الہی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ چوہدری پرویز الہی کی بار بار گرفتاری کا ڈرامہ کرکے انہیں ہیرو بنا رہی ہو اور بظاہر انہیں پابند سلاسل رکھ کر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ان کی قربانیوں پر قائل کر رہی ہو تاکہ عمران خان کی نا اہلی کے بعد وہ اسٹیبلشمنٹ کے خواہش کے مطابق پارٹی 'سنبھال‘ سکیں۔
چوہدری پرویز الہی کا قصور کیا ہے؟
سینئر صحافی خالد فاروقی کے مطابق چوہدری پرویز الہی کا قصور صرف یہ ہے کہ عمران خان کے لیے اپنی حمایت کی وجہ سے اب اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول نہیں رہے۔ ان کے بقول چوہدری پرویز الہی نے پی ٹی آئی چھوڑنے یا سے توڑنے سے انکار کیا۔ خالد فاروقی نے ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان پہلے چوہدری پرویز الہی اور ان کے بیٹے مونس الہی کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے لیکن پی ٹی آئی کی مدد سے پنجاب کا وزیراعلی بننے کے بعد انہوں نے اس جماعت کا ساتھ دیا اور اپنااسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دہائیوں پرانا تعلق بھی قربان کر دیا۔‘‘
تجزیہ کار سلمان عابد کے مطابق چوہدری پرویز الہی کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے طاقتوروں کی خواہش کے برعکس پنجاب اسمبلی کو تحلیل کیا اور عمران خان کو نہیں چھوڑا۔ ''انہوں نے چڑھتے سورج کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنا اور اپنے بیٹے کا سیاسی مستقبل عمران خان کی سیاست کے ساتھ وابستہ کر لیا۔‘‘
روزنامہ دنیا کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے دو بار طاقتور حلقوں کے ساتھ کیا گیا اپنا وعدہ توڑا۔ غنی کے مطابق، ''جو لوگ یقین دہانی کروا کر اپنی بات سے پھر جائیں۔ ملکی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے لیے پھر سیاست میں آسانیاں نہیں ہوتیں۔‘‘
کیا پرویز الہی کی قربانی جمہوریت کے لیے ہے؟
سلمان غنی کے خیال میں چوہدری پرویز الہی جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ اپنے طرز سیاست کے لیے مشکل صورتحال سے دوچار ھیں۔ سلمان غنی کے بقول، '' پرویز الہی کی جمہوریت کے لیے قربانی تو تب ہونی تھی، جب وہ اپنے پنجاب اسمبلی نہ توڑنے کے موقف پر کاربند رھتے۔ اس طرح وہ خود اور پاکستان تحریک انصاف دونوں بہت سی مشکلات سے بچ جاتے۔ لیکن انہوں نے جو فیصلہ کیا اس پر کچھ طاقتور حلقے انھیں اپنے ساتھ کی گئی وعدہ خلافی کہ سزا بھی دینا چاھتے ھیں ۔‘‘
سلمان غنی بتاتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی نے طاقتور حلقوں کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ایسا کوئی اقدام نہیں ھو گا، جس سے سسٹم اپ سیٹ ھو لیکن پھر حالات کچھ ایسا رخ اختیار کر گئے کہ جس کی وجہ سے پرویز الہی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس پر دستخط کرنے پر مجبور ہو گئے۔
سلمان عابد کا کہنا ہے، '' پاکستان میں کوئی بھی لیڈر جمہوریت کے لئے نہیں مرا جا رہا سب کی اپنی اپنی سیاست ہے۔سب پاور پالیٹکس میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ اقتدار کی سیاست ہے۔ پرویز الہی کا خیال ہے کہ ان کی یہ قربانی انہیں پی ٹی آئی کی حکومت آنے پر پنجاب کا وزیر اعلی بنوا سکتی ہے۔‘‘
سلمان عابد کے نزدیک اگر چوہدری پرویز الہی کی اس قربانی سے ان کے بیٹے کو فائدہ پہنچتا ہے تو بھی یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی سمیت بہت سوں کی اولادیں بھی تو اپنے والدین کی سیاست سے فیض یاب ہو رہی ہیں۔
صحافی خالد فاروقی کہتے ہیں کہ جو بھی سیاست دان مزاحمت کرتا ہے وہ جمہوریت کے لئے ہی ہوتی ہے۔''پرویز الہی ایک بزرگ سیاست دان ہیں وہ دباؤ میں آکر ایسا فیصلہ کر سکتے تھے جو ان کو مصیبتوں سے بچالیتا لیکن انہوں نے ایک ایسے وقت میں مشکلات کو گلے لگایا جب پی ٹی آئی کے بڑے بڑے لیڈر چھپ کر بیٹھ گئے تھے یا معافیاں مانگ کر پارٹی چھوڑ چکے تھے۔‘‘
خالد فارووقی سمجھتے ہیں کہ یہ پرویز الہی یہ سب کچھ اپنے بیٹے کے کیرئیر کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے کیرئیر کے لئے کر رہے ہیں کیونکہ وہ نواز شریف اور عمران خان کے تقریباﹰ ہم عمر ہیں اور وہ ابھی اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کی متمنی ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار فارووق حمید کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب پرویز الہی کو اسٹیبلشمنٹ اور خود اپنی فیملی کا ساتھ میسر نہیں ہے ان کا مشکلات برداشت کرنا قابل تحسین ہے۔
کیا پرویز الہی بیٹے کے ہاتھوں مجبور ہیں؟
چوہدری پرویز الہی کے خاندانی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چوہدری پرویز الہی اپنے صاحبزادے مونس الہی کی بات کو رد نہیں کرتے اس کی ضد کے آگے چوہدری پرویز الہی نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات بگاڑ لیے اور آصف علی زرداری جیسے دوست کے ساتھ بھی نہ چل سکے۔
ایک سوال کے جواب میں چوہدری پرویز الہی کے ایک قریبی عزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چوہدری پرویز الہی کو چوہدری شجاعت حسین نے بھی سمجھایا تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ انہوں نے اپنی سیاسی اننگز کھیل لی ہے اب بچوں کا سیاسی کیرئیر ہے اس کی بہتری کے لیے ان کے مشورے کے ساتھ ہی آگے بڑھنا مناسب ہوگا۔
تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری پرویز الہی اپنے خاندان کے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے بیٹے مونس الہی کے زیر اثر آ گئے جو یہ سمجھتا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف آنے والے دنوں میں ان کو پنجاب میں کوئی بڑا کردار دے سکتی ھے۔
سلمان غنی کے بقول، ''پرویز الہی کو ایسی یقین دھانی بھی کروائی گئی تھی مگر وہ یہ نھیں جانتے تھے کہ اس منصب کی یقین دھانی کے سیاست میں وفا ھونے کے امکانات کم ھوتے ھیں مگر پھر بھی بیٹا باپ پر غالب رھا اور اب یہی کہا جا سکتا ھے کہ بیٹا خود تو سپین کی آزاد فضاوں میں ہے مگر اس کا باپ گھمبیر صورتحال سے دو چار ھے۔‘‘
سلمان غنی کے مطابق اس صورتحال کے پیچھے محض کرپشن یا سیاسی انتقام کے الزامات ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ہے جو اور کسی کو پتہ ہو نہ ہو، مگر چوھدری پرویز الہی کو سب پتہ ہے۔
کیا چوہدری پرویز الہی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف ہیں؟
کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چوہدری پرویز الہی نے اسٹیبلشمنٹ کو نہیں چھوڑا ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے لیے اپنے دروازے بند کر لیے ہیں۔ خالد فارووقی کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویز الہی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف نہیں ہیں۔ وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین فاصلوں کو کم کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ ان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ وہ منقسم اسٹیبلشمنٹ کے اس حصے کے ساتھ رابطے میں تھے، جو عمران خان کے لئے نرم گوشہ رکھتا تھا اور آج کل موثر نہیں ہے۔
فاروق حمید کا کہنا ہے کہ چوہدری خاندان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وفاداری کی تاریخ پرانی ہے اور پرویز الہی بھی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کرتے رہے ۔ فاروق حمید کے مطابق، '' پرویز مشرف دور میں قاف لیگ بنانے کے عمل میں وہ پیش پیش تھے۔
بدقسمتی سے ان کا دامن صاف نہیں تھا ان پر اپنے حلقے کے ترقیاتی کاموں میں غیر قانونی اقدامات اور کرپشن کے الزامات تھے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''مونس الہی کی اسپین میں سرمایہ کاری پر بھی سوالیہ نشان تھے۔ اس لئے ان کا احتساب کے نرغے میں آجانا مشکل نہیں تھا۔‘‘
فاروق حمید سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ہو سکتا ہے کل کلاں اسٹیبلشمنٹ کے بائیں جانب کھڑے پرویز الہی اسٹیبلشمنٹ کے دائیں جانب کھڑے پائے جائیں۔
چوہدری خاندان میں دراڑیں؟
سلمان غنی کہتے ہیں کہ کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی میں اب بھی احترام کا رشتہ موجود ہے لیکن ان کی سیاسی راہیں اب مکمل طور پر جدا ہو چکی ہیں۔ ان کے بچوں میں بھی گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ''جہاں تک چوھدری شجاعت کی مدد کا سوال ھے تو چوھدری شجاعت اس حوالے سے بڑے کرب سے دو چار ھیں مگر وہ عملاﹰ اس لیے مدد سے گریزاں ھیں کہ دونوں کے بیٹوں کے درمیان ناچاکی ھے اور حقیقت یہ ھے کہ کزنز کے اختلافات نے اس خاندان کی طاقت اور اہمیت کو بہت بری طرح متاثر کر رکھا ھے۔‘‘