1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں اقتدار کی جنگ، کس کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے؟

7 جنوری 2023

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بڑی جماعتوں کے سیاست دان کشیدہ صورتحال سنبھالنے میں کامیاب ہوتےنظر نہیں آ رہے ہیں اور مبصرین کے مطابق یہ صورتحال کسی غیر جمہوری اقدام کی بنیاد بن سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Lr0U
Pakistan | Chaudhry Pervaiz Elahi, ehemalige Ministerpräsident der Provinz Punjab
تصویر: ZUMA Press/Imago

پاکستان کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی صوبہ پنجاب ملکی سیاسی لڑائی کا سب سے بڑا میدان جنگ بن چکا ہے۔ یہاں خودغرضانہ سیاست اور سیاسی مجبوریاں کشیدگی کو بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔ ان کے مطابق انہیں نہیں لگتا کہ اس صورتحال میں دو بڑی جماعتوں کے سیاست دان سنگین سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے کوئی درمیانی راستہ نکالنے پر آمادہ ہیں۔

ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق، ''اس وقت پنجاب میں برسراقتدار اتحاد میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف دونوں مختلف اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون بھی کسی ممکنہ مصالحت پر تیار نہیں۔ اس صورتحال میں مارشل لا لگنے کا کوئی فوری امکان تو نہیں البتہ حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو پھر کسی غیر جمہوری اقدام کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔‘‘

یاد رہے کہ مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے پنجاب کے وزیراعلٰی چوہدری پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کر رکھی ہے لیکن چوہدری پرویز الہی اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار کر چکے ہیں۔ عمران خان نے پرویز الہی کی طرف سے اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرنے کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پنجاب اسمبلی کو مستعفی کروانی کی دھمکی دی تھی۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ نے پرویز الہی کی طرف سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر عدالت جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

اس ہنگامہ خیز سیاسی ماحول میں ہفتہ سات جنوری کو پاکستان تحریک انصاف نے ایک یو ٹرن لیتے ہوئے وزیر اعلٰی پنجاب کے اعتماد کا ووٹ نہ لینے کے فیصلے کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے قانونی ماہرین کے ایک وفد نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو بتایا کہ موجودہ صورتحال میں گورنر پنجاب کا حکم عدالتی کارروائی کے ساتھ مشروط ہے اس لیے پہلے عدالتی فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ بعد میں اعتماد کو ووٹ لینے پر غور کیا جانا چاہیے۔

Pakistan | Muhammad Baligh Ur Rehman (links)
مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے پنجاب کے وزیراعلٰی چوہدری پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کر رکھی ہے۔تصویر: PPI/ZUMA Press Wire/picture alliance

پاکستان کے ایک ممتاز تجزیہ کار محمد مالک کے مطابق پنجاب میں سیاسی صورت حال بہت دلچسپ رخ اختیار کر چکی ہے: ''عمران خان اسمبلی توڑنا چاہتے ہیں لیکن ان کے اتحادی اس پر تیار نہیں۔ اس صوبے میں حکومت تو عمران خان کی ہے لیکن صوبے میں اختیار کسی اور کا چل رہا ہے۔ جنوبی پنجاب میں بھی سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے۔ آزاد الیکٹیبلز بھی اکٹھے ہو رہے ہیں، طاقتور حلقے بھی استعفوں کے حق میں نہیں اور سسٹم کو چلانا چاہتے ہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے محمد مالک کا مزید کہنا تھا، ''نمبر گیم میں پرویز الہی کے پاس ارکان اسمبلی کی مطلوبہ  تعداد کی حمایت نظر نہیں آ رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کے بھی کئی لوگ اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتے۔ معاملہ عدالت میں ہے اور لگتا یہی ہے کہ یہ معاملہ کچھ دیر ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ‘‘

محمد مالک نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ سابق صدر آصف علی زرداری پنجاب کی سیاست میں اس وقت نظر نہیں آ رہے لیکن جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ لوگوں کی ملاقاتیں جاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا کوئی امکان ابھی نہیں ہے لیکن ان کے خیال میں اگلی حکومت جب بھی بنی تو اس میں پیپلز پارٹی کو ان کے حقیقی حجم سے زیادہ سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔

سینئر صحافی اور فورٹی ٹو نیوز کے گروپ ایڈیٹرنوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت پنجاب میں غیرمعمولی صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ان کے بقول پنجاب میں حالات کی خرابی ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے بعد دیکھنے میں آئی۔ ان کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت میں مزید توسیع حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں اپنی مرضی کا سیاسی بندوبست چاہتے تھے اور انہوں نے ہی پرویز الہی کو پی ٹی آئی کی طرف بھیجا تھا: '' اگرچہ اس وقت نون لیگ اور پی ٹی آئی بھی پنجاب میں اپنے اپنے کارڈز کھیل رہی ہیں لیکن اصل گیم کو پرویز الہی لیڈ کر رہے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ پرویز الہی کس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔‘‘

نوید چوہدری کے خیال میں پنجاب کی موجودہ صورتحال ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس میں آہستہ آہستہ واقعات منظر عام پر لائے جا رہے ہیں۔ نوید چوہدری سمجھتے ہیں کہایم کیو ایم کا اکٹھے ہونا اور باپ پارٹی کے ارکان کا پیپلز پارٹی میں جانا ایسے واقعات  ہیں جو خودبخود رونما نہیں ہو رہے۔

نوید چوہدری نے بتایا کہ طاقتور حلقوں نے عمران خان کی خواہش کے باوجود ان کو ملاقات کا وقت دینے سے انکار کر دیا ہے اور اگر خان صاحب نے اپنی احتجاجی رائے پر اصرار کرتے ہوئے  قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو امکانی طور پر ان کے خلاف دائر کیے جانے والے مقدمات کی رفتار میں تیزی آ سکتی ہے۔

نوید چوہدری کا تاہم یہ خیال ہے کہ ملک میں کسی غیر جمہوری اقدام کا کوئی خطرہ نہیں ہے ان کے بقول غیر جمہوری اقدام اس وقت ہوتا ہے جب طاقتور حلقوں کی مرضی نہ چلے یا ان کے فیصلوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہو۔