1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے کیوں؟

عبدالستار، اسلام آباد
21 اکتوبر 2023

’بیس سالوں سے زائد کے عرصے میں ایچ ای سی اور دوسرے اداروں کی طرف سے دوائیوں اور ویکسین پر تحقیق کرنے والے صرف ایک ہی ادارے کو 40 ارب روہے دیے گئے، جس نے نا تو کوئی ویکسین تیار کی اور نہ ہی کوئی دوائی۔‘

https://p.dw.com/p/4XqIo
Coronavirus in USA Testkit
تصویر: Getty Images/K. Betancur

دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور پاکستان میں ہر سال یکم رمضان اور عید الفطر کے تعین کے لیے چاند کے نظر آنے یا نہ آنے سے متعلق سالہاسال سے تنازع چلتا آرہا ہے۔ یہ صورتحال اس عمومی سماجی رویے کی عکاسی بھی کرتی ہے، جس میں ہماری سائنس اور سائنسی سوچ سے زہنی دوری کی نشاندہی ہوتی ہے۔

ملک کا سب سے بڑا اور واحد نوبل انعام یافتہ سائندان ملک کے اندر معتوب ہے جب کہ حال ہی میں خیبرپختوانخواہ میں مذہبی تنظیموں کے کارکنان نے ایک استاد کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا کی مذمت کرے اور اسے غلط قرار دے۔  اس رویے کے ساتھ ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج کے لیے کی جانے والی کوشش بھی رائیگاں ہی معلوم ہوتی ہے۔

Pakistan | Eine Luft- und Raumfahrtingenieurin befasst sich mit der globalen Erwärmung
پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے مواقعوں کی کمی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہےتصویر: Ali Kaifee/DW

ایسی ہی ایک کوشش حکومت نے حالیہ دنوں میں کی جب پاکستان اور امریکہ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں باہمی تعاون کے ایک معاہدے کو مزید پانچ سال کے لیے توسیع دی۔ اس معاہدے پاکستان میں سائنسی ترقی کی زبوں حالی پر بھی ایک بحث بھی چھیڑ دی ہے۔

معاہدے کا پس منظر 

ہائر ایجوکیشن (ایچ ای سی) کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان اور امریکہ نے 2003 ء میں اس تعاون کے حوالے سے فریم ورک تیار کیا تھا اور سن 2005ء میں  یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ یا یو ایس ایڈ نے پاکستانی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور ایچ ای سی کے ساتھ مل کر اس پروگرام میں تعاون کرنا شروع کیا۔

 2008 میں امریکی محکمہ خارجہ نے اس منصوبے میں ایک معاون کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس پروگرام پر عمل درامد کے زمہ دار ادارے امریکی نیشنل سائنس اکیڈمی اور پاکستان کا ہائر ایجوکیشن کمیشن ہیں۔

مفید باہمی تعاون

سائنسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی ماہرین کے خیال میں اس معاہدے سے پاکستان کا فائدہ  ہے۔ ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر طارق بونیری  نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ فریم ورک معاہدہ ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے، جہاں ٹھوس اقدامات کے حوالے سے بات چیت کی جاتی ہے اور اسے متعلقہ امریکی ادارے مالی طور پر سپورٹ کرتے ہیں جیسا کہ یو ایس ایڈ۔‘‘

طارق  بونیری کے مطابق یو ایس ایڈ کے ریسرچ اور اعلیٰ تعلیم کے کئی پروگراموں کو اس معاہدے کے تحت مالی امداد فراہم کی گئی۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' جیسے کہ پانی، توانائی اور ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے تحقیق کے لیے ایک سینٹر قائم کیا گیا۔ منتخب جامعات میں اسٹاف کی صلاحیتوں کو بہتر کرنے کے لیے ٹریننگ پروگرامز شروع کیے گئے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے اہم موضوعات کو نصاب میں شامل کرنے کے لیے مدد فراہم کی گئی۔‘‘ 

Chemiker Atta-ur-Rahman aus Pakistan
پاکستان ہائر ایجوکیشن کے سابق چئیر مین والے ڈاکٹر عطا الرحمن تصویر: CC BY-SA Urooj rashid

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں طبعیات کے ایک سابق  پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید نیر کا کہنا ہے کہ امریکی تعلیمی اداروں کا معیار سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت بلند ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ان کی جامعات میں ریسرچ کے حوالے سے دوسرے ممالک سے لوگوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور وہاں کا تعلیمی ماحول ریسرچ کے لئے بہت سازگار یے۔ اگر اس معاہدے کے تحت پاکستانی سائنس دان یا ریسرچرز وہاں جا کر سیکھیں تو یہ پاکستان کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔‘‘

اسلام اباد میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان جوناتھن لیلے نے ڈی ڈبلیو کے سوالات کے جواب میں ایک تحریری بیان بھیجا، جس کے مطابق، ''پاک امریکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی معاہدے میں چوتھی بار توسیع دونوں ممالک کے اس مشترکہ عزم کی عکاسی کرتی ہے، جس کے تحت وہ اس تعاون کو باہمی مفاد اور پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے خواہاں ہیں۔ امریکہ کو امید ہے کہ اس معاہدے کی توسیع سے دونوں ممالک کے درمیان زراعت، توانائی اور آئی ٹی میں باہمی تعاون مزید مضبوط ہوگا۔‘‘

’امریکی تعاون کا خاص فائدہ نہیں‘

تاہم کچھ دوسرے ناقدین کا خیال ہے کہ اس طرح کے معاہدوں سے پاکستان کی سائنسی ترقی کو کوئی فائدہ نہیں۔  پاکستان کے معروف  جوہری سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے امریکہ اور مغرب کی طرف سے پاکستانی ریسرچرز اور سائنس دانوں کو سختیوں کا سامنا رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمیں اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہے لیکن پاکستان اپنے طور پر اپنے ذرائع سے اتنی ریسرچ اور تحقیق کر لیتا ہے کہ سختیوں کے باوجود بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم اپنی ضرورتیں پوری کر سکیں۔‘‘

سائنسی ترقی کی رفتار سست کیوں؟

پاکستان میں سائنسی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ طارق بونیری کے خیال میں فنڈنگ کی کمی، بدعنوانی، ناقص انتظامیہ، ریسرچ کے کام میں چربہ سازی کا رجحان اور سیاسی اثر رسوخ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ''فنڈنگ کم  ہے اور جو فنڈنگ آتی ہے اس کو بھی بہت بہترطریقے سے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 20 سال سے زائد کے عرصے میں ایچ ای سی اور دوسرے اداروں کی طرف سے دوائیوں اور ویکسین پر تحقیق کرنے والے صرف ایک ہی ادارے کو 40 ارب روہے دیے گئے، جس نے نا تو کوئی ویکسین تیار کی اور نہ ہی کوئی دوائی۔

عبدالحمید نیر کا خیال ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ اور پرائمری تعلیم دونوں ہی غفلت کا شکار ہیں۔ '' آدھے سے  زیادہ ہمارے بچے اسکول جا نہیں پاتے اور جو جاتے ہیں وہ سرکاری سکولوں میں یا دیہات کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں، جہاں تعلیم کا معیار انتہائی پست ہے۔ ملک میں ڈھائی سو سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں لیکن ان میں نصف سے زائد یعنی ڈیڑھ سو کا معیار انتہائی پست ہے۔‘‘

 عبدالحمید نیر کے مطابق پاکستان میں ہارڈویئر ریسرچ بہت کم ہے۔'' اور جو تھوڑی بہت ریسرچ ہوتی ہے وہ اپنے معاملات کو کسی نہ کسی طرح حل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔‘‘

سائنس وٹیکنالوجی کا شعبہ اعدادو شمار کی روشنی میں

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج کے لیے رقم بھی بہت کم مختص کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر مالی سال 2023 اور 24 میں سوشل سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام میں  وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے جو ترقیاتی پروگرام رکھے گئے ان کی مالیت صرف آٹھ ہزار ملین روپے ہے۔

 پاکستان میں سائنس کے حوالے سے کوئی انتہائی مستند ڈیٹا بھی موجود نہیں ہے۔ پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے کے اعدادو شمار سے متعلق  آخری ڈیٹا بک 2009 میں شائع کی گئی، جبکہ اس سے پہلے صرف  ایک اور ڈیٹا بک شائع کی گئی تھی۔پاکستان کےنجی شعبے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق کے لیے ریسرچ کا کوئی ادارہ نہیں جبکہ سرکاری شعبے میں  سائنسی تحقیق اور ترقی کے پچاسی ادارے قائم ہیں۔

’پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کا مستحق تعلیم، اور تحقیق کا شعبہ ہے‘, ڈاکٹر آصفہ اختر