1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی حالتِ زار

18 جولائی 2012

پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص فنڈز جاری نہ کیے جانے کی وجہ سے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/15Zeq
تصویر: DW

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو اس سال پاکستان سے سرکاری خرچ پر ایک بھی طالبعلم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک نہیں جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کمیشن کو ساڑھے اٹھارہ ارب روپے سے زائد کے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اندرون و بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے 10 ہزار طلبہ کو گزشتہ 6 ماہ سے وظیفوں اور ٹیوشن فیس کی مد میں رقم ادا نہیں کی گئی۔ ڈاکٹر جاوید لغاری کا کہنا تھا کہ اس وقت اندرون ملک 6 ہزار جبکہ بیرون ملک 4 ہزار طلبہ مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اس وقت جو طلبہ بیرون ملک ہیں، انہیں سالانہ 9 ارب روپے درکار ہوتے ہیں جبکہ ہمارے لیے اس مرتبہ بجٹ میں رکھے ہی 9 ارب روپے گئے ہیں تو باقی کیا بچے گا۔ اس لیے نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور تعلیمی سہولیات کے لیے رقم موجود نہیں ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ بیرون ملک طلبہ کے ساتھ رقم دینے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، وہ ہم پورا نہ کر سکیں کیونکہ ہم ان کو واپس آکر بھیک مانگنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے‘۔

اسلام آباد حکومت کے مطابق کچھ ایسی مشکلات درپیش ہیں کہ فی الحال اعلیٰ تعلیم کے لیے رقوم مہیا کرنا آسان نہیں
اسلام آباد حکومت کے مطابق کچھ ایسی مشکلات درپیش ہیں کہ فی الحال اعلیٰ تعلیم کے لیے رقوم مہیا کرنا آسان نہیںتصویر: AP

حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے گزشتہ سال کے بجٹ میں مختص کیے گئے 9 ارب روپے ابھی تک ادا نہیں کیے اور اس مرتبہ بھی مختص کی گئی 9 ارب سے زائد کی رقم جاری نہیں کی جا سکی ہے۔

معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کو اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص رقوم کی ادائیگی کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ پر تلوار گر چکی ہے۔ حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں، حکومتی اقتصادی منتظمین نے سوچا تھا کہ 8 سے 9 سو ارب روپے بینکنگ کے شعبے سے ادھار لے کر بجٹ خسارہ پورا کر لیں گے لیکن اب جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، حکومت کو لگ بھگ 1.6 کھرب روپے کی ضرورت پڑی اور بجٹ خسارہ پُر کرنے کے لیے یہ رقم بینکنگ سیکٹر سے ادھار لی گئی‘۔

دوسری جانب حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ موجودہ حکومت کی ترجیح ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ ایسی مشکلات درپیش ہیں، جن سے فی الحال اعلیٰ تعلیم کے لیے رقوم مہیا کرنا آسان نہیں لیکن جلد ہی حکومت اس مسئلے پر قابو پا لے گی۔

سابق وزیر مملکت برائے تعلیم اور قومی اسمبلی کے رکن فرید کاٹھیا کا کہنا ہے کہ ’مرکز نے اعلیٰ تعلیم کو صوبوں کے حوالے کر دیا تھا، ابھی اس کے لیے بجٹ رکھا بھی ہے اور حکومت نے 9 ارب کے قریب ان کو دیا بھی۔ حکومت نے پہلے بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے کافی بجٹ دیا اور اب بھی دینے کا پروگرام تھا لیکن چونکہ بجٹ میں کٹوتیاں لگتی رہتی ہیں، آگے چل کر جس طرح وصولیاں ہوتی ہیں تو وسائل کے مطابق پیسے مہیا کیے جاتے ہیں‘۔

پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہاں ہے لیکن ملکی یونیورسٹیاں وسائل کی شدید کمی کا شکار ہیں
پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہاں ہے لیکن ملکی یونیورسٹیاں وسائل کی شدید کمی کا شکار ہیںتصویر: DW

قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ حکومت نے پہلے سے طے شدہ فنڈز مہیا نہ کر کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ورلڈ بینک کی طرف سے دی جانے والی گرانٹ بھی اس بات سے مشروط ہے کہ وہ اچھی کارکردگی دکھائے لیکن جب اس کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے رقم ہی نہیں ہوگی تو کس طرح سے اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔ اس طرح ان کے لیے حالات مشکل بن چکے ہیں اور ملک میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی متاثرہ ہو رہا ہے‘۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کے صرف 8 فیصد حصے کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی ہے۔ موجودہ حکومت نے 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں کہا تھا کہ 2015 تک 10 فیصد تک جبکہ 2020ء تک 15 فیصد لوگوں کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی دی جائے گی تاہم موجودہ صورتحال میں یہ ہدف پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

ادھر ایچ ای سی حکام کا کہنا ہے کہ پی ایچ ڈی کے لیے منظور شدہ 4 ہزار سکالرز مالی معاونت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے انتظار میں ہیں جبکہ 8 نو قائم شدہ یونیورسٹیوں میں سے کسی ایک میں بھی کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا اور یہ یونیورسٹیاں زیادہ تر چاروں صوبوں کے دور دراز علاقوں میں ہیں۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں