1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایچ ای سی فنڈنگ: کمی سے اعلیٰ تعلیمی نظام مفلوج ہونے کا خدشہ

عبدالستار، اسلام آباد
13 جون 2019

پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے ہائر ایجوکیشن  کمیشن کی فنڈنگ میں کمی پر تعلیمی، سیاسی اور سماجی حلقوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے اعلیٰ تعلیم و تحقیق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

https://p.dw.com/p/3KMEV
تصویر: Getty Images/Ian Waldie

مالی سال سن دو ہزار انیس بیس کے بجٹ میں ایچ ای سی کے لیے انتیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ گزشتہ برس اس ادارے کے لیے چھیالیس ارب روپے رکھے گئے تھے۔ یوں اس فنڈنگ میں تقریباﹰ چالیس فیصد تک کی کمی کی گئی ہے، جس پر پاکستان میں کئی حلقے انتہائی ناخوش اور غیر مطمئن ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر عمار جان کے خیال میں یہ کمی پی ٹی آئی کے ان دعووں کی نفی کرتی ہے، جن میں اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ تعلیم اور سماجی شعبے پر زیادہ رقوم خرچ کرے گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اگر آپ کو فنڈز کم ہی کرنا تھے، تو دوسرے سیکٹر یا ادارے بھی موجود تھے۔ تعلیم کے لیے فنڈنگ پہلے ہی کم تھی۔ پی ٹی آئی نے آتے ساتھ ہی اربوں روپے ایچ ای سی کے روکے تھے جب کہ اس سال بھی ایچ ای سی نے پچپن ارب روپے کی مانگ کی تھی لیکن حکومت نے کافی کم رقوم مہیا کرنے کا اعلان کیا۔ ہم اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے کیونکہ اس سے نہ صرف ہزاروں اساتذہ اور طلبہ متاثر ہوں گے بلکہ تحقیقی کام کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔‘‘

Schweiz Labor Symbolbild
تصویر: picture-alliance/KEYSTONE/G. Bally

بہت سے سیاست دان بھی اس کمی پر نالاں ہیں اور وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جانے کی بات کر رہے ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ کا دعویٰ ہے کہ اس فنڈنگ میں کمی سے سب سے زیادہ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے طلبہ متاثر ہوں گے۔ انہوں نے کہا، ''عمران خان یہ کہہ کر اقتدار میں آئے تھے کہ وہ انسانوں پر پیسہ رقوم خرچ کریں گے۔ لیکن انہوں نے تو تعلیم کے شعبے کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ حکومتوں پر تنقید کی تھی کہ وہ سٹرکوں پر پیسے خرچ کرتی تھیں۔ لیکن اب موجودہ حکومت نے بھی سڑکوں کے لیے بھاری بجٹ رکھا ہے اور تعلیم کے لیے کم کر دیا ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے سڑکوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لیے بھی کافی فنڈز رکھے تھے اور پسماندہ علاقوں میں بھی یونیورسٹیاں قائم ہو رہی تھیں۔ اس لیے ایچ ای سی کا بجٹ تو اب اسی بلین روپے ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت نے اسے مزید کم کر دیا ہے۔ ہم اس کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے اور اس مسئلے کو پارلیمان میں بھی اٹھائیں گے۔‘‘

China Pakistans Premierminister Imran Khan
وزیر اعظم عمران خانتصویر: AFP/T. Peter

پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی دو ہزار پندرہ سولہ کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار پندرہ سولہ میں اس کے بجٹ میں بہت اضافہ ہوا تھا اور پہلے ایک سو چوالیس تعلیمی منصوبے حکومت کی طرف سے منظور کر لیے گئے تھے، جنہیں بعد میں کم کر کے ایک سو اکتالیس کر دیا گیا تھا۔

ایچ ای سی کے ہیومن ریسورس ڈویلپمںٹ پروجیکٹ کے تحت دوہزار دو سے دو ہزار پندرہ تک گیارہ ہزار انہتر ایسے طلبہ کو وظیفے دیے گئے جن کی ڈگریاں ماسٹرز سے لے کر پی ایچ ڈی تک تھیں۔

اسی عرصے میں چار ہزار نو سو ایک اسکالرشپس بیرون ملک وظائف کی مد میں بھی دیے گئے تھے۔ اس رپورٹ کے بعد ایچ ای سی کی اگلی سالانہ رپورٹ ابھی تک نہیں آئی۔ ایچ ای سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب ایچ ای سی نے ایک 'وژن دو ہزار پچیس‘ نامی پروگرام حکومت کو پیش کیا ہے۔

کئی ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ اس فنڈنگ کی کمی سے ایک دو منصوبے نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کا پورا نظام ہی بیٹھ جائے گا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ساجد خان کا کہنا ہے کہ حکومت کو معاملے کی سنگینی سمجھنا چاہیے ورنہ پورا نظام تعلیم تباہ ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا، ''ایک اندازے کے مطابق چالیس فیصد سے بھی زیادہ جامعات کی فنڈنگ ایچ ای سی کرتی ہے۔ تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا نظام مالی طور پر مفلوج ہو جائے گا۔ پہلے ہی فنڈنگ میں کمی کی وجہ سے تحقیقی جرائد بند ہو رہے ہیں یا ان کی اشاعت میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ محققین ایسے جرائد کی اشاعت کے لیے رقوم خود اپنی جیب سے خرچ کر رہے ہیں۔‘‘

Im Labor  Erlenmeyerkolben Schutzbrille
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May

تاہم ایچ ای سی کا دعویٰ ہے کہ وہ فنڈنگ کی اس کمی کے باوجود کوشش کر رہی ہے کہ تحقیقی شعبہ متاثر نہ ہو۔ کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بونیری نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بجٹ میں کمی سے بہت سے پروگرام متاثر ہوں گے لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اسکالرشپ پروگراموں کو بچا لیں۔ خصوصاﹰ ان طلبہ کے لیے جو اس وقت ایچ ای سی کے اسکالرشپس پر ہیں۔ اس وقت سات ہزار چار سو طلبہ ایچ ای سی کے اسکالرشپس پر بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایچ ای سی کے پاس مزید پانچ ہزار اسکالرشپس ابھی موجود ہیں۔‘‘

ڈاکٹر طارق بونیری کا کہنا تھا کہ مہنگائی اور جامعات کی  بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں صحیح اعداد و شمار کی دستیابی مشکل ہے، ''لیکن اس کو جی ڈی پی کی شرح کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں مختص کیا گیا فنڈ جی ڈی پی کا تقریباﹰ صفر اعشاریہ دوفیصد ہے، جو دو ہزار پانچ کے بعد سے کم ترین شرح ہے۔ اس کے علاوہ مالی سال دو ہزار اٹھارہ انیس کے اکیس ارب روپے بھی ایچ ای سی کو جاری نہیں کیے گئے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ صورت حال سے ملکی صدر، وزیر اعظم، وزیر تعلیم اور مشیر خزانہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور انہوں نے ایچ ای سی کے ایجنڈے کی حمایت بھی کی ہے۔ لیکن ماہرین کے خیال میں ملک کی کمزور اقتصادی حالت کے پیش نظر اس کمیشن کی مالی حالت بھی آئندہ کمزور ہی رہے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں