1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت تجارت، ’بیل منڈھے نہیں چڑھے گی‘

Ali Amjad24 اپریل 2012

پاک بھارت تعلقات عشروں پرانے تنازعات سے عبارت چلے آ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان امن عمل تعطل کا شکار ہے۔ تاہم اب دونوں ملکوں کے حکام باہمی تجارتی تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے کشیدگی اور تناؤ میں کمی کی امید کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/14k6D
تصویر: AP

پاکستان کے معروف تجزیہ نگار نذیر ناجی پاک بھارت تجارت کے تو زبردست حامی ہیں تاہم ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی سیاست کرنے والی قوتوں کے لیے باہمی تجارت کی جانب تیزی سے ہونے والی پیشرفت قابل قبول نہیں ہو گی۔ ہمارے ساتھی امجد علی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نذیر ناجی نے بتایا:’’ٹریڈ اپنے مفادات خود پیدا کرتا ہے اور اپنے لیے گنجائشیں خود نکالتا ہے اور ٹریڈ کرنے والوں کے لیے بھی گنجائشیں نکالتا ہے۔ ساری دُنیا نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے، ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم نہیں اٹھا پا رہے۔‘‘

اُن سے اِن خدشات کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا مختلف چیزیں پیدا کرنے والے جو مقامی افراد ہیں، مثلاً کسان یا پھر صنعت کار، اُنہیں تجارت کھل جانے سے نقصان نہیں ہو گا؟ نذیر ناجی نے جواب میں کہا کہ ’ایسا نہیں ہے، صنعت کار ہمیشہ کھلے بارڈر مانگتا ہے، صنعت کار فرینڈلی مارکیٹ مانگتا ہے، صنعت کار نارمل حالات مانگتا ہے‘۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت سے بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے
مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت سے بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے

اِس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کے عام شہریوں اور صارفین کو پاک بھارت ٹریڈ کھل جانے سے خاص طور پر اور فوری طور پر سب سے زیادہ فائدہ کیا پہنچے گا، نذیر ناجی کا کہنا تھا:’’ٹریڈ کھل جانے سے فوری فائدہ یہ ہو گا کہ مقابلہ بازی آئے گی، مقابلہ بازی میں منافع کم ہو گا، موناپلی کم ہو گی، اجارہ داری کم ہو گی اور ہمارے ہاں سب سے بڑی اجارہ دار اسٹیٹ ہے، جو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہے۔ میرا خیال ہے، جو لوگ آگے آنا چاہتے ہیں، جو فورسز آگے بڑھنا چاہتی ہیں، وہ خود بہت کمزور ہیں۔ اُن میں اتنی طاقت نہیں ہے۔ نہ سیاسی طاقتیں اتنی مضبوط ہیں، نہ مارکیٹ فورسز اتنی مضبوط ہیں اور نہ ہی ہمارا صنعت کار اتنا مضبوط ہے۔‘‘

پاکستان اور بھارت کے درمیان مصنوعات کا تبادلہ آج کل بھی ہوتا ہے لیکن زیادہ تر دبئی کے راستے
پاکستان اور بھارت کے درمیان مصنوعات کا تبادلہ آج کل بھی ہوتا ہے لیکن زیادہ تر دبئی کے راستےتصویر: picture-alliance/ZB

تو کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات فروغ پا جائیں تو اِس سے صارفین کو تو فائدہ ہی ہو گا لیکن اُن کے خیال میں حالات ایسے ہیں کہ یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی؟ جواب میں نذیر ناجی نے کہا:’’یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی بلکہ سخت ردعمل ہو گا، کوئی کاؤنٹر اٹیک آ جائے گا، کوئی سبوتاژ کارروائی ہو جائے گی، کوئی دہشت گردی ہو جائے گی۔ کشیدگی اور محاذ آرائی کی اکانومی اب اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ اب جو ٹریڈ کی طرف آنا ہے، وہ اُس کے وابستہ مفادات کو مجروح کرتا ہے، لہٰذا وہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ تو اب بھی جتنی تیزی سے اِنڈیا پاکستان تجارت کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ تیزی وابستہ مفادات کو اچھی نہیں لگے گی اور وہ ہِٹ بیک کریں گے، باؤنس بیک کریں گے اور کوئی نہ کوئی دھماکہ ہو جائے گا اور کشیدگی دوبارہ آ جائے گی۔‘‘

اِن حالات میں کونسا راستہ اختیار کرنا بہتر رہے گا، اس سوال کے جواب میں نذیر ناجی نے بتایا:’’میرا خیال ہے، اِس سے بچنے کے لیے بہت محتاط انداز میں آگے بڑھنا چاہیے، رفتار کم رکھنی چاہیے اور اِس طرح سے آگے بڑھنا چاہیے کہ یہ جو جنگ پر پلے ہوئے، نفرتوں پر پلے ہوئے وابستہ مفادات ہیں، یہ اپنے لیے خطرہ محسوس نہ کریں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید