1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وطن میں بے روزگاری سے فرار، ہسپانوی نوجوانوں کی منزل لندن

مقبول ملک15 اپریل 2014

اپنے وطن میں وسیع تر بے روز گاری کے باعث زیادہ سے زیادہ ہسپانوی نوجوان اب برطانیہ کا رخ کرنے لگے ہیں تاکہ وہاں ملازمت کریں اور انگریزی زبان بھی سیکھ سکیں۔ تاہم برطانیہ میں انہیں اکثر نئی طرح کی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BiBN
تصویر: picture-alliance/dpa

برطانیہ میں اس وقت مشرقی یورپ کے غریب ملکوں سے بہت بڑی تعداد میں آنے والے یورپی یونین کے شہریوں کے بارے میں زبردست بحث جاری ہے لیکن اہم بات تو یہ ہے کہ اسپین سے برطانیہ جانے والے ایسے ہزارہا شہریوں کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ برس 51 ہزار سے زائد ایسے ہسپانوی شہری برطانیہ منتقل ہو گئے، جن میں سے اکثریت کی عمریں 34 برس سے کم تھیں۔ اس تعداد کو دیکھا جائے تو 2013ء میں برطانیہ جانے والے یورپی شہریوں میں پولینڈ کے باشندوں کے بعد اسپین کی شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔

Spanien Arbeitslosigkeit Junge Menschen
ہسپانوی نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 55 فیصد تک پہنچ چکی ہےتصویر: REUTERS

اسپین کے شہر بارسلونا کے فٹ بال کلب کے مداحوں کی لندن میں قائم تنظیم کے صدر ایڈورڈ ماناس کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران ایسے ہسپانوی شہریوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، جو اپنے لیے بہتر مستقبل اور انگریزی زبان کی تعلیم کے لیے برطانیہ منتقل ہو گئے۔

مشرقی یورپ سے برطانیہ کے مختلف شہروں کا رخ کرنے والے زیادہ تر مشرقی یورپی باشندو‌ں کے برعکس ہسپانوی شہریوں کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح برطانیہ میں اپنے لیے روزگار کے مقابلتاﹰ بہتر مواقع سے اس وقت تک فائدہ اٹھائیں جب تک کہ خود اپسین میں ان کے لیے کام کاج کی صورت حال بہتر نہیں ہو جاتی۔

2008ء میں آنے والے اقتصادی بحران کے بعد اسپین ابھی تک اس کے اثرات سے نکلنے کی کوششیں کر رہا ہے، جس میں اسے آہستہ آہستہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ اس وقت جزیرہ نما آئبیریا کی اس ریاست میں بے روزگاری کی شرح 26 فیصد ہے جبکہ ہسپانوی نوجوانوں میں یہی تناسب قریب 55 فیصد بنتا ہے۔

ایڈورڈ ماناس کا اپنا تعلق بھی اسپین سے ہے اور وہ 15 برس سے برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں جو ہسپانوی نوجوان برطانیہ کا رخ کر رہے ہیں، ان میں سے اکثر کی عمریں 20 اور 30 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ ’’یہ وہ نواجوان ہوتے ہیں جنہوں نے تعلیم و تربیت حاصل کی ہوتی ہے، لیکن جو اپنے ملک میں کوئی ملازمت حاصل نہیں کر پاتے۔‘‘

Becks Bier Weltweit
بہت سے ہسپانوی شہری برطانیہ میں اپنے لیے ریستورانوں اور بارز میں چھوٹی موٹی ملازمتیں ڈھونڈ لیتے ہیںتصویر: DW/C.Bleiker

اسپین کے یہ نوجوان برطانیہ، خاص کر لندن آ کر وہاں کے کثیر النسلی اور کثیر الثقافتی ماحول سے بہت متاثر تو ہوتے ہیں لیکن ان کا ایک مستقل مسئلہ مالی پریشانیاں بھی رہتی ہیں۔ ان کے لیے لندن رہائش، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے حوالے سے بہت مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ ان حالات کا نتیجہ بہت زیادہ محنت اور ایک سے زیادہ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرنے کی صورت میں نکلتا ہے تاکہ یہ ہسپانوی نوجوان برطانیہ آ کر بھی مادی محرومیوں سے محفوظ رہیں۔

گزشتہ برس اکتوبر میں برطانیہ پہنچنے والوں میں بارسلونا سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ مارک ریکورڈا اور ان کی 22 سالہ شریک حیات جوآنا تریگ بھی شامل تھے۔ جوآنا ایک تربیت یافتہ ٹیچر ہیں اور مارک ایک آڈیو ویژُوئل پروڈیوسر۔

اب جوآنا بھی ایک معمولی سی ملازمت کرتی ہیں جبکہ مارک لندن کے علاقے پکاڈِلی سرکس میں ایک بار میں کام کرتے ہیں۔ مارک ریکورڈا کے لیے ہر روز 12 سے 14 گھنٹے تک کام کرنا معمول کی بات ہے اور انہیں ملنے والی اجرت 6.3 پاؤنڈ فی گھنٹہ ہوتی ہے، برطانیہ میں کسی بھی کارکن کے لیے قانونی طور پر طے کردہ کم از کم فی گھنٹہ اجرت۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید