1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی تارکینِ وطن کی آمد: کیا جرمنی تیار ہے؟

ندیم گِل6 جنوری 2014

یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی قوت جرمنی کو اس مسئلے کا سامنا ہے کہ یورپی یونین کی غریب رکن ریاستوں رومانیہ اور بلغاریہ کے تارکین وطن کے خدشے سے کیسے نمٹا جائے۔

https://p.dw.com/p/1Alsp
تصویر: picture-alliance/dpa

ان دونوں ملکوں کے شہریوں کو یکم جنوری سے یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ یورپی یونین کی کسی بھی رکن ریاست میں ملازمت اختیار کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ترقی یافتہ رکن ملکوں میں یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ ان ملکوں کے شہری بڑی تعداد میں وہاں کا رُخ کر سکتے ہیں۔

2004ء میں یورپی یونین کی جانب سے پہلی مرتبہ مشرقی یورپ کے ملکوں کو رکنیت دینے کے بعد سے لاکھوں تارکین وطن برطانیہ میں بس چُکے ہیں۔ اسی تناظر میں گزشتہ ماہ لندن حکومت نے تارکینِ وطن کو بے روزگاری الاؤنسز کے حصول سے روکنے کے لیے قانونی سازی کی۔

برطانیہ میں نئے قوانین کے مطابق یورپی یونین کے دیگر ملکوں سے وہاں جانے والے تارکینِ وطن کو بے روزگاری الاؤنس اور دیگر مراعات کی درخواست دینے سے پہلے تین مہینے تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اب جرمنی بھی اس بات پر غور کر رہا ہے کہ اس حوالے سے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے اور یہاں رومانیہ اور بلغاریہ کے مقابلے میں کم از کم اجرت تقریباﹰ پانچ گُنا زیادہ ہے۔

Große Koalition CDU und SPD einigen sich 27. Nov. 2013 Koalitionsvertrag
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور نائب چانسلر زیگمار گابرئیلتصویر: Reuters

نائب جرمن چانسلر زیگمار گابرئیل نے کہا ہے کہ اس مسئلے پر بات چیت کی جانی چاہیے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے بِلڈ اخبار سے گفتگو میں کہا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کو کم بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔

گابرئیل اور چانسلر انگیلا میرکل نے اس سے قبل بات چیت میں ملک کے بہترین فلاحی نظام کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا تھا۔

گابرئیل کا مزید کہنا تھا: ’’ہمیں بلغاریہ اور رومانیہ کے شہریوں کے ساتھ امتیازی رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ہمیں اس مسئلے کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو غریب لوگوں کی آمد پر جرمنی کے بعض بڑے شہروں کو درپیش ہے۔‘‘

تاہم جرمنی میں سب لوگ اس بات سے پریشان نہیں ہیں۔ یہاں پہلے ہی بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی پر تشویش پائی جاتی ہے۔ جرمن ایوانِ صنعت و تجارت کے ڈائریکٹر مارٹن وانزلیبن کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے جرمنی کو آئندہ برسوں میں اپنی شرح نمو کو برقرار رکھنے اور فلاحی نظام کی ضمانت دینے کے لیے کم از کم 15 لاکھ تربیت یافتہ غیرملکی ورکرز درکار ہیں۔ انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا: ’’ہمیں تارکینِ وطن کے لیے حالات بہتر بنانے ہوں گے، یہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔‘‘

رومانیہ اور بلغاریہ 2007ء میں پسماندہ ریاستوں کےطور پر یورپی یونین کا حصہ بنے تھے۔ اس وقت یہ خدشہ تھا کہ ان ریاستوں سے روزگار کی تلاش میں شہریوں کی بڑی تعداد امیر ملکوں کا رُخ کرے گی جس کی وجہ سے متعدد ارکان نے اپنی روزگار کی منڈیوں کےدروازے ان ملکوں کے شہریوں پر بند کر دیے تھے۔

یکم جنوری کو بلآخر ان کے شہریوں پر عائد یہ پابندیاں ختم ہو گئیں جس کے بعد وہ آسٹریا، بیلجیئم، برطانیہ، فرانس، جرمنی، لکسمبرگ، مالٹا، ہالینڈ اور اسپین میں روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔