1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو کے فیصلے افغانستان کا ملا جلا رد عمل

Kishwar Mustafa22 مئی 2012

ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانسان کے سلامتی کے اداروں سے منسلک پولیس اہلکار اور فوجیوں کے اندر وفا داری کا فقدان پایا جاتا ہے: افغان ماہرین

https://p.dw.com/p/1508y
تصویر: Reuters

شکاگو میں منعقدہ نیٹو سربراہی کانفرنس میں اس مغربی دفاعی اتحاد نے افغانستان کے بارے میں طے شدہ روڈ میپ کا اعادہ کیا۔ اس روڈ میپ کے مطابق کابل حکومت کو بہت جلد ملکی سکیورٹی کی ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر لینا ہوں گی۔ مغربی ممالک اُس کی مالی امداد کریں گے۔ ان فیصلوں پر افغانستان میں ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔

افغان حکومت شکاگو میں نیٹو اجلاس کے اختتام پر ہونے والے فیصلوں سے بڑی مطمئن نظر آ رہی ہے۔ اجلاس میں شریک افغان وفد کے ایک رکن کے مطابق ’تمام تر امیدیں‘ پوری ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ کابل حکومت کے مطالبے پر نیٹو فورسز 2013ء تک افغانستان کی سلامتی کی تمام تر ذمہ داری افغان پولیس اور فوج کو سونپ دیں گی۔ تاہم 2014 ء میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے بعد بھی نیٹو افغان فوج کی عسکری تربیت کا سلسلہ 2024 ء تک جاری رکھے گا اور تب تک کابل حکومت کو جار بلین ڈالر سالانہ ادا کیے جاتے رہیں گے۔ افغانستان کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان جنان موسیٰ زئی تاہم کہتے ہیں کہ یہ رقم محض افغانستان کی مدد کے لیے نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں،’’ افغانستان کی سلامتی پر خطے اور تمام دنیا کی سلامتی کا دار ومدار ہے۔ اس اعتبار سے جو امداد ہمیں ملی ہے وہ افغانوں کے لیے کوئی خیرات نہیں ہے بلکہ یہ خطے اور تمام دنیا کی سلامتی کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری ہے۔‘‘

NATO-Gipfel in Chicago 2012
شکاگو میں نیٹو اجلاس کے موقع پر پولیس کا سخت پہرہتصویر: dapd

عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ افغانستان اور تمام دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس پس منظر میں شکاگو کانفرنس کے نتائج کابل حکومت کی کامیابی ہیں، کیونکہ تمام دنیا نے افغانستان کی مدد جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔

یہ خیالات ہندوکش کے بہت سے ماہرین کی رائے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہ اسے کابل حکومت کی طرف سے اصلیت کو چھپاتے ہوئے حالات پر قلعی کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نیٹو کابل حکومت کے مطالبات پر عمل پیرا ہے بلکہ معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہے۔ ایک سابق افغان جنرل عتیق اللہ بریالائی کے مطابق،’’شکاگو کے فیصلوں پر افغان حکومت کو اطمینان کا اظہار کرنا ہی تھا۔ نیٹو نے افغانستان سے فوجی انخلا کا حتمی فیصلہ داخلہ پالیسی اور مالی وجوہات کے پیش نظر کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب طالبان مزید طاقتور ہو رہے ہیں۔ یہ افغانستان کے حق میں کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہے۔‘‘

Anschlag auf den Dienstsitz des Gouverneurs der südafghanischen Provinz Kandahar
جنگ سے تباہ حال افغانستان بدستور غیر مستحکمتصویر: dapd

اسی قسم کے خیالات کا اظہار ریٹائرڈ افغان جنرل حسن مختار نے بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’’افغان فوجیوں کی تربیت کی ناکافی ہے اور انہوں نے مختصر ٹریننگ کورس کیا ہوا ہے۔ یہ تربیت سنگین جھڑپوں اور میدان جنگ میں مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ افغان پولیس کے بہت سے اہلکار ناخواندہ ہیں، اس لیے ان کی تعلیم و تربیت دشوار عمل ہے۔‘‘

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانسان کے سلامتی کے اداروں سے منسلک پولیس اہلکار اور فوجیوں کے اندر وفا داری کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ریٹائرڈ افغان جنرل حسن مختار کا کہنا ہے کہ فوج کے بہت سے اہلکار اپنے قبائلی سرداروں اور وار لاڈز کے آگے جوابدہ ہیں۔ اس کے علاوہ افغان فوج اور پولیس کے مخصوص حلقے پر طالبان کے اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ نیٹو کی طرف سے موجودہ افغان فوج کی نفری میں کمی کے فیصلے کو بھی ماہرین غلط حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔

S.Ratbil/km/S.Hans/aba

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں