فوج سے تعلق نہیں، حقیقی جمہوریت چاہتا ہوں، طاہر القادری
4 اگست 2014پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ ملک کو جمہوریت کے نام پر جمود کی حامی قوتوں نے یرغمال بنا رکھا ہے اور روایتی سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کے حل میں ناکام ہو چکی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی، انتخابی، عدالتی، سماجی اور معاشی اصلاحات چاہتے ہیں اور اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انقلاب مارچ کرنے جا رہے ہیں۔ ’’جمہوریت دھاندلی پر مبنی انتخاب والے ایک دن کا نام نہیں۔ یہ ایک کلچر، فلسفے اور عوام کی شراکت داری کے نظام کا نام ہے، یہ سب کچھ پاکستان میں نظر نہیں آ رہا، ہم ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جیسی جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں کے عوام کو میسر ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء لگنے کا کوئی امکان نہیں ہے، اگر ملک میں مارشل لاء آیا تو وہ اس کی مخالفت کریں گے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ڈاکٹر قادری نے اس تاثر کی تردید کی کہ ان کی احتجاجی تحریک دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کو متاثر کر سکتی ہے۔ ان کے بقول یہ آپریشن اپنی کامیابیوں کے ساتھ اب ختم ہونے کو ہے۔
پاکستانی حکمران ان حکومت مخالف احتجاجی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر قادری نے بتایا کہ ان کا تجربہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے سیاست دان قابل اعتبارنہیں ہیں، ''پچھلے سال لانگ مارچ کے اختتام پر بھی انہوں نے مذاکرات کے بعد مجھ سے جو وعدے کیے تھے وہ وفا نہیں ہو سکے۔‘‘
کیا آئین کے تحت ہونے والے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی آئینی اور جمہوری حکومت کا صرف ایک سال بعد خاتمہ کر دینے کی کوششوں کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر قادری کا کہنا تھا کہ دو ہزار تیرہ میں ہونے والے انتخابات اس لیے آئینی نہیں تھے کہ انہیں ایک ایسے الیکشن کمیشن نے کرایا تھا، جس کی تشکیل آئین کے آرٹیکل دو سو تیرہ اور دو سو اٹھارہ کے مطابق نہیں کی گئی تھی۔ ان کے بقول اس الیکشن کمیشن کے ذریعے عوامی ووٹوں پر ڈاکہ ڈالا گیا۔
جب ڈاکٹر قادری سے پوچھا گیا کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت ابھی تک ان کو کیوں حاصل نہیں ہو سکی، تو ان کا کہنا تھا کہ status quo کی حامی جماعتیں انہیں کبھی سپورٹ نہیں کریں گی، تاہم تبدیلی کی خواہشمند جماعتیں ان کے ساتھ ہیں لیکن ان کی حمایت کا فیصلہ ایک حکمت عملی کے تحت ابھی سامنے نہیں لایا جا رہا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 48 گھنٹے فائرنگ کرکے چودہ افراد مار دیے گئے، نوّے لوگ زخمی کر دیے گئے، لیکن مقتولین کے ورثا کی کوششوں کے باوجود ایف آئی آر تک بھی درج نہیں کی جا رہی۔ ''میں جرمنی، فرانس اوردیگر مغربی ملکوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر ان کے ہاں ایسا واقعہ ہوتا، تو کیا وہاں کی حکومتیں مستعفی نہ ہو جاتیں؟‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر قادری نے بتایا کہ انقلاب کا مطلب خونی انقلاب نہیں بلکہ اس کا مطلب پرامن تبدیلی ہے۔ انہوں نے اپنے حتمی مطالبات سامنے لانے سے معذوری ظاہر کی اور کہا کہ وہ اپنے انقلاب مارچ کے آغاز پر کچھ مطالبات پیش کریں گے اور باقی مطالبات اسلام آباد پہنچ کر ظاہرکیے جائیں گے۔ تاہم ان کے پاس اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں تھا کہ اسلام آباد پہنچے کے بعد بھی اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ وہاں موجود عوام کریں گے اور وہ بھی انہی کے فیصلے کو تسلیم کریں گے۔
انٹرویو کے آخر میں جب ان سے پوچھا گیا کہ بعض تجزیہ نگاروں کے بقول یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ ایک مسلم ریاست کی طرف سے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ان حالات میں اگر فوج اور شریف حکومت میں معاملات طے پا گئے، تو آپ کہاں کھڑے ہوں گے، اس پر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں نہ کوئی علم ہے اور نہ ہی انہیں اس سے کوئی دلچسپی ہے۔ ''ہماری تحریک کا فوج اور شریف حکومت کے عزائم سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہماری ساری جدوجہد عوام کے مسائل کے حل اور انسانی حقوق کے لیے ہے۔‘‘
ادھر مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی احتجاجی تحریک کے ذریعے ملک میں جاری ترقی کا عمل روکنا چاہتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود نے پیر کے روز لاہور میں کہا کہ اگر حکومت کو derail کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر مسلم لیگ (ن) کے کارکن بھی سڑکوں پر ہوں گے۔ اس صورتحال کے ملکی سٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔