1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نازک وقت پر طاہر القادری کی پاکستان آمد

عاصم سليم23 جون 2014

پاکستان عوامی تحریک کے رہنما طاہر القادری آج پاکستان پہنچ رہے ہيں۔ انہوں نے ملک ميں پُرامن انقلاب لانے اور وزير اعظم نواز شريف کو اُن کے منصب سے ہٹانے کے اپنے ارادوں کے تحت وسيع تر احتجاجی مظاہروں کی دھمکی دے رکھی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CO3O
تصویر: AP

سن 2006ء سے کينيڈا ميں مقيم معروف مذہبی رہنما علامہ طاہر القادری 23 جون کی صبح پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ رہے ہيں۔ کینیڈا سے اپنی روانگی سے قبل انہوں نے اپنے ايک ٹویٹر پيغام ميں کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں پاکستانی فوج کی حمايت کے ليے وطن لوٹ رہے ہيں۔ برطانوی دارالحکومت لندن کے بين الاقوامی ہوائی اڈے پر دبئی کے لیے اپنی پرواز سے کچھ ہی دير قبل انہوں نے کہا تھا، ’’دہشت کے خاتمے، امن کے قيام، حقيقی جمہوريت اور غريب عوام کے ليے معاشی اور سماجی انصاف کی فراہمی کے ليے ہی ميں پاکستان آ رہا ہوں۔‘‘

قادری 2006ء ميں کينيڈا منتقل ہو گئے تھے
قادری 2006ء ميں کينيڈا منتقل ہو گئے تھےتصویر: DW

حکومت پاکستان نے کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار واقعے کے پيش نظر اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی ميں عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ شہر ميں دفعہ 144 نافذ ہے، جس کے تحت عوامی سطح پر ريليوں يا اجتماعات کے انعقاد اور لاؤڈ اسپيکروں کے استعمال پر بھی پابندی ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد کے بين الاقوامی ہوائی اڈے کے ارد گرد سکيورٹی کے سخت انتظامات کيے گئے ہيں اور ايئر پورٹ کو جانے والے تمام راستوں پر رکاوٹيں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ وزارت داخلہ کے احکامات پر پاکستان ٹيلی کميونيکيشن اتھارٹی نے ٹیلی مواصلاتی اداروں کو راولپنڈی اور اسلام آباد ميں صبح پانچ بجے سے رات گيارہ بجے تک تمام موبائل فون سروسز بند رکھنے کے لیے کہہ ديا ہے۔ نيوز ايجنسی روئٹرز نے اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ ان اقدامات سے ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کے سبب حکومتی گھبراہٹ کی نشاندہی ہوتی ہے۔

قبل ازيں طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحريک کے جاری کردہ ايک بيان ميں کہا گيا تھا کہ ’لڑائی‘ يا احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ راولپنڈی اسلام آباد سے ملک کے دوسرے شہروں کو بھی منتقل کيا جا سکتا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر لاہور ميں گزشتہ ہفتے طاہر القادری کے حاميوں اور پوليس کے مابین ہونے والے تصادم ميں کم از کم آٹھ افراد مارے گئے تھے، جن ميں ايک پوليس اہلکار بھی شامل تھا۔ پوليس کی طرف سے شہريوں کے خلاف طاقت کے خونریز استعمال کا يہ واقعہ ان دنوں مقامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور پنجاب کی صوبائی حکومت پر اس حوالے سے کافی دباؤ بھی ہے۔

طاہر القادری ایسے وقت پاکستان پہنچ رہے ہيں، جب ملکی فوج نے ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقوں ميں دہشت گرد عناصر کے خلاف وسیع تر عسکری کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ اسی وجہ سے ملٹری آپریشن سے متاثرہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے باشندوں کی بہت بڑی تعداد عارضی پناہ کے لیے ملک کے دیگر حصوں کا رخ کر رہی ہے۔ ان حالات کو مختلف خبر رساں اداروں نے حکام اور سياستدانوں کے ليے ’مصروفیت کے نازک وقت‘ کا نام دیا ہے۔

علامہ طاہر القادری سابق صدر پرويز مشرف کے دور حکومت ميں قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہيں۔ 1999ء ميں نواز شريف حکومت کی برطرفی کے ساتھ اقتدار ميں آنے والے پرویز مشرف کے دور ميں طاہر القادری نے اہم کردار ادا کيا تھا۔ 2006ء ميں وہ کينيڈا منتقل ہو گئے تھے۔

پولیس کے ساتھ تصادم


پاکستانی دارالحکومت سے ملنے والی تازہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان عوامی تحريک کے ہزاروں حامی شہر ميں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود اپنے رہنما طاہر القادری کے استقبال کے ليے راولپنڈی کے ہوائی اڈے اور قریبی علاقے میں پہنچے، جہاں ان کا مقامی پوليس کے ساتھ تصادم ہوا۔ اس کے علاوہ پوليس نے فيض آباد نامی علاقے ميں مظاہرين کو منتشر کرنے کے ليے آنسو گيس استعمال کی اور لاٹھی چارج کيا جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے حاميوں نے بھی پوليس پر پتھراؤ کيا۔ بعد ازاں لاہور ميں ہونے والے حاليہ خونریز واقعات کی طرز پر کسی نئے ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے ليے پوليس پيچھے ہٹ گئی۔

لینڈنگ کی اجازت سے انکار

دريں اثناء طاہر القادری کو لے کر آنے والا مسافر طیارہ قريب سوا گھنٹے کی تاخير سے راولپنڈی کی فضا میں پہنچ تو گیا ليکن پاکستانی وقت کے مطابق صبح نو بجے آخری خبريں آنے تک اس طيارے کو ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت نہيں دی گئی تھی۔ فضائی کمپنی الامارات اور پاکستانی میڈیا کے مطابق طیارے کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔