1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی ادارہ صحت کا الرٹ: طبی ماہرین کا اظہار تشویش

عبدالستار، اسلام آباد
8 دسمبر 2023

ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستانی کمپنی فارمکس کی ایک دوائی پر الرٹ جاری کرنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی سنگین غفلت نہ صرف ملکی بدنامنی کا باعث ہے بلکہ اس سے مقامی کمپنیوں کی ساکھ بھی خراب ہو گی۔

https://p.dw.com/p/4ZwfP
Symbolfoto I Hustensaft
تصویر: mrp/imageBROKER/picture alliance

عالمی ادارہ صحت نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ کچھ سیرپ اور سسپینشن میڈیسنز میں ایتھیلین گلائی کول منظور شدہ مقدار سے زیادہ پائی گئی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ میڈیسن بنانے والی کمپنی پاکستانی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فارمکس لیبارٹریز کی ان دوائیوں میں اجزاء کی منظور شدہ مقدار سے زیادہ مقدار کی موجودگی کا پتہ سب سے پہلے مالدیپ میں چلا۔ اس دوائی کے ابھی تک ضرر رساں اثرات سامنے نہیں آئے ہیں۔

تاہم ڈبلیو ایچ او نے مالدیب سمیت متعدد ممالک پر زور دیا ہے کہ اس کمپنی کی مصنوعات کے ٹیسٹ کو مزید سخت کریں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اس پاکستانی کمپنی کی طرف سے دسمبر 2021 سے لے کے دسمبر 2022 تک جو سیرپ یا مصنوعات بنائی گئی ہیں ان کی سخت جانچ پڑتال اور ٹیسٹ کریں۔

پاکستان سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے کیوں؟

پاکستان ميں ريم ڈی سيور کی تياری: نفع کيا، نقصان کيا؟

یہ زیادہ مقدار ایلرگو نامی سیرپ میں پائی گئی تھی، جس کا مالدیپ کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے نومبر میں پتہ لگایا اور بعد میں آسٹریلیا کے ریگولیٹر نے اس بات کی تصدیق کی۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے بھی فارمکس نامی اس کمپنی کا دورہ کیا جس نے مبینہ طور پر یہ سیرپ بنایا تھا اور ریگولیٹری اتھارٹی کو پتہ چلا کہ دوسری کئی مصنوعات میں بھی ایتھلین گلائی کول کی مقدار زیادہ تھی۔

فرقان قدوائی: پاکستان کی سب سے بڑی آن لائن فارمیسی کے بانی

ڈریپ کا موقف

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسرعاصم روف نے تصدیق کی کہ کمپنی کا نام فارمکس ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ''اس سیرپ کو نومبر 2022 میں بنایا گیا تھا اور مالدیپ بھیجا گیا تھا۔ کئی ریاستوں نے شکایت کی اور اس کے بعد ہم نے ایکشن لیا۔ ہم نے اس کمپنی کے سیرپ سیکشن کو بند کر دیا ہے۔ اس سیرپ کا سیمپل لے کر ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور ٹیسٹ کا رزلٹ اگلے ہفتے میں ممکنہ طور پر آ جائے گا اور پھر اس کمپنی کے خلاف مزید ایکشن لیا جائے گا۔‘‘

عاصم روف نے ممکنہ سزا کے حوالے سے بتایا، ''اگر اس کے نتائج میں الزامات ثابت ہوئے تو پھر کمپنی کی رجسٹریشن بھی منسوخ کی جا سکتی ہے۔‘‘

انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس معاملے میں ان کے ادارے نے غفلت برتی ہے، ''پاکستان میں 650 کمپنیاں 60 سے زائد ممالک کو دوائیاں ایکسپورٹ کر رہی ہیں لیکن صرف یہ ایک پہلی شکایت آئی ہے، جس پر ہم نے فورا ایکشن لیا ہے۔ ہمارے 500 سے 600 کے قریب انسپیکٹرز ہیں جو معیار کو چیک کرتے ہیں۔‘‘

ڈریپ اور متعلقہ ادارے ذمہ دار ہیں

 تاہم ڈاکٹروں کی سب سے بڑی ایک تنظیم کا دعوی ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اس غفلت کی ذمہ دار ہے۔ جب ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسویشن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالغفور شورو سے رابطہ کیا تو انہوں نے پی ایم اے کا ایک بیان ڈی ڈبلیو کو بھیجا۔ بیان میں کہا گیا ہے، '' یہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان اور متعلقہ اداروں کی ناکامی ہے، جس سے پاکستان میں دوائیوں کے سیفٹی کے حوالے سے سوالات اٹھیں گے۔‘‘

پی ایم اے نے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کی مکمل تفتیش کی جائے اور حکومت دوائیوں کی پیداوار کے دوران سیفٹی اور اس کی کوالٹی کو یقینی بنائیں۔

بیان میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ ریگولیٹری سسٹم کو مزید سخت کیا جائے، ''فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو صحیح معنوں میں ریگولیٹ کیا جائے اور ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کو جدید تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ اس طرح کی دوائیوں کی شناخت کریں اور فوری طور پر رپورٹ کریں۔‘‘

مقامی مارکیٹ کی دوائیں بھی چیک کی جائیں

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے طبی ماہر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کا کہنا ہے کہ اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان میں ریگولیٹری نام کی کوئی شے نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ڈریپ ایک کرپٹ ادارہ ہے، جس کے انسپیکٹرز کرپشن میں ملوث ہیں۔ ایتھلین گلائی کول کی اتنا زیادہ مقدار اس بات کی نشاہدی کرتی ہے کہ دوائیوں کی کمپنیوں میں پروفیشنلز نہیں ہیں۔‘‘

ڈاکٹرعبدالرشید میاں کے مطابق اب حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی سطح پر بھی فراہم کی جانے والے ساری دوائیوں کی جانچ پڑتال کرے، ''لاہور اور ملک کے دوسرے علاقوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جہاں لوگوں کو مقامی دوائیوں سے طبی طور پر نقصان پہنچا ہے۔‘‘

صحت پر اثرات

طبی ماہر ڈاکٹر عبید عثمانی نے اس سیرپ میں ایتھلین گلائی کول کی ہائی مقدار کی موجودگی پہ تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے صحت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کی منظور شدہ مقدار زیرو اعشاریہ دس ہے جب کہ اس سیرپ میں یہ زیرو اعشاریہ باسٹھ سے لے کر زیرو اعشاریہ بیاسی تک ہے، جس سے گردے، جگر اور جسم کے دوسرے اعضاء کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ بعض صورتوں میں اگر حالت بہت زیادہ خراب ہو جائے تو نوبت کومے تک بھی پہنچ سکتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر عبید عثمانی کے مطابق یہ دل کر مریضوں کے لیے بھی مضر رساں ہوسکتی۔ ''اس کے علاوہ یہ انسانی دماغ اور نظام تنفس پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔‘‘

مردوں اور عورتوں پر ادویات کے سائیڈ ایفکٹس مختلف کیوں؟