1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ميں ريم ڈی سيور کی تياری: نفع کيا، نقصان کيا؟

عبدالستار، اسلام آباد
15 مئی 2020

ايک پاکستانی فارما کمپنی کو ریم ڈی سیور نامی اینٹی وائرل دوائی بنانی کی اجازت مل گئی ہے، جس پر حکومتی حلقے خوش ہیں لیکن ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اس سے مریضوں اور صارفین کو کوئی فائدہ ہوگا۔

https://p.dw.com/p/3cHuc
Remdesivir antivirales Medikament in Erprobung
تصویر: AFP/U. Perrey

حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ اس سے پاکستانی ادويات کی برآمدات میں اضافہ ہوگا، جس کا کورونا وائرس کی وبا سے متاثرہ معیشت پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وبا کی وجہ سے ایک ہزار ادارے بند اور ایک کروڑ ستر لاکھ لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں۔

امریکا کی ایک فارماسيوٹیکل کمپنی نے پاکستان اور بھارت کی مجموعی طور پر پانچ کمپنیوں کو ریم ڈی سیور بنانے اور برآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس میں پاکستان کی ایک اور بھارت کی چار کمپنیاں شامل ہیں۔ پاکستان ميں فیروز سنز نامی کمپنی کو یہ دوا بنانے کی اجازت ملی ہے۔ کمپنی کے ایک سینئر عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہم پاکستان کی پہلی کمپنی ہیں، جسے یہ اجازت ملی ہے۔ ہمیں کچھ ریگولیٹری مراحل سے گزرنا ہے۔ ہمارے پاس پلانٹ موجود ہے اور کچھ ہی ہفتوں میں ہم اس کی پیداوار شروع کر دیں گے۔‘‘

حکومتی حلقے اسے ایک بڑا اعزاز قرار دے رہے ہیں۔ ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی آف پاکستان کے ڈویژون آف فارمیسی سروسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرشید نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ریم ڈی سیور کو حال ہی میں امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے کورونا وائرس کے آزمائشی علاج کے ليے منظور کیا ہے۔ گيليئڈ فارميسی نے پاکستان کو اجازت دی ہے کہ وہ اسے تيار کرے۔ ہمارے ليے يہ بڑا اعزاز ہے۔ اس وقت پاکستان ساٹھ ممالک کو ادويات برآمد کرتا ہے اور یہ دوائی ایک سو ستائیس ممالک کو بر آمد کی جا سکے گی، جس سے زر مبادلہ کے ذخائر کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوا کے استعمال سے کووڈ انيس کے مریضوں کے علاج کا دورانیہ کم ہونے کے آثار ملے ہيں۔ ''کیونکہ اس وقت دنیا میں کورونا کی ویکسین یا کوئی اور حتمی دوائی موجود نہیں ہے تو ایسے میں ريم ڈی سيور سے مريضوں کے علاج کا دورانیہ کم ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں متعلقہ ادارے اس کے سائیڈ ایفیکٹس يا ممکنہ منفی اثرات کی بھی سخت نگرانی کریں گے۔‘‘

پاکستان ریلوے کی ’ قرنطینہ ٹرین‘

پاکستان میں اینٹی وائرل ادويات عام طور پر انجیکشن کے شکل میں ہوتی ہیں اور وہ مہنگی بھی بہت ہوتی ہیں۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اس دوائی کی قیمت بھی زیادہ ہوگی۔ کراچی کی سوئس فارما کے سابق پروڈکٹ مینيجر سہیل عامر کا کہنا ہے کہ ایک کمپنی کو ایسی دوائی بنانے کی اجازت دے کر امریکی کمپنی نے اجارہ داری کا راستہ ہموار کیا ہے۔ ''پاکستان میں فارما کمپنیاں پہلے ہی بے لگام گھوڑے کی طرح ہیں۔ وہ پہلے ہی عوام سے منہ مانگے دام لے رہی ہیں۔ جو دوائی یہاں چار سو روپے کی ہے وہ شايد بھارت میں چار روپے کی ہو۔ اب کیونکہ ایک ہی کمپنی کو یہ اجازت ملی ہے، تو وہ منہ مانگے دام لے گی۔ اس میں امیروں کو فائدہ ہوگا، غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہاں، اگر حکومت غریبوں کو سبسڈی دے تو شايد انہیں فائدہ ہو جائے لیکن حکومت کی مالی حالت اچھی نہیں۔‘‘

حکومت کے ایک ادارے کے ايک سینئر افسر نے سہیل عامر کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''لازمی بات ہے کہ اگر زیادہ کمپنیوں کو اجازت دی جاتی، تو قیمت کے ليے مقابلہ ہوتا اور اس کے نتيجے ميں قیمتیں نیچے آتيں۔ اب ریسرچ اور تیاری کے نام پر کمپنی زیادہ قیمت مانگے گی۔‘‘

کورونا وائرس کا ابھی تک علاج دریافت نہیں ہوا لیکن پھر بھی خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ دوائیں صحت يابی ميں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ماہرین کے خیال میں یہ دوا کووڈ انيس کی مریضوں کے ليے بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔ بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ پلمونولوجی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر پروفیسر شاہین خان کا کہنا ہے کہ ريم ڈی سيور سے کورونا کے علاج میں مدد مل سکتی ہے۔ ''کورونا از خود صحیح ہونے والی بیماری ہے۔ تاہم یہ دوائی مریض کو بعد کے مراحل میں دی جا سکتی ہے جب اس کی حالت زیادہ خراب ہونے لگے۔ امریکا میں اس کا تجربہ ہو چکا ہے لیکن اس کی تفصیلی تحقیق سامنے نہیں آئی کیونکہ حالات اس وقت ہنگامی ہیں تو لوگ تفصیلی تحقیق کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے بلکہ بہتر متبادل کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ دوائی بہتر متبادل میں سے ایک ہے، جس سے کورونا کے مریضوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘‘