1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

صومالیہ کا کینیا سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ

16 دسمبر 2020

صومالیہ کا کہنا ہے کہ وہ کینیا سے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلا لےگا اور کینیا کے سفارت کاروں کو بھی موغادیشو چھوڑنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3mmh1
Flagge Somalia
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba

صومالیہ کے وزیر اطلاعات عثمان ابو بکر دوبے نے منگل 15 دسمبر کو کہا کہ موغادیشو کی حکومت کینیا سے اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا رہی ہے اور کینیا کے سفارت کاروں کو بھی صومالیہ ترک کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ تاہم عثمان ابو بکر نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ آخر نیروبی اور موغادیشو کے درمیان اس تازہ جھگڑے کی اصل وجہ کیا ہے۔

صومالی وزیر نے البتہ کینیا کی عوام کو "امن پسند" قراردیتے ہوئے ملک کی موجودہ قیادت پر صومالیہ کے اندرونی معاملات میں بابار مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا۔ اطلاعات کے مطابق صومالیہ کے دورافتادہ شمالی علاقے میں واقع نیم خود مختار خطے کے صدر موسے بیہی عابدی کے نیروبی کے ایک مبینہ دورے کے بعد یہ تنازعہ پیدا ہوا ہے۔

فرانس کے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کینیا کے صدر اوہورو کینیاتا نے پیر کے روز بذات خود عابدی کا نیروبی میں استقبال کیا تھا۔ کینیا صومالیہ کے جبّہ لینڈ کے نام سے معروف جنوبی صوبے کے صدر احمد مدوبے کی بھی حمایت کرتا رہا ہے اور صومالیہ کو اس پر بھی کافی دنوں سے اعتراض ہے۔

صومالیہ کی مرکزی حکومت آئندہ برس ہونے والے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے تاہم وفاقی حکومت کے ساتھ احمد مدوبے کے تعلقات کافی دنوں سے اچھے نہیں ہیں۔ دو ہفتے پہلے کی بات ہے موغادیشو نے کینیا کے سفارت کار کو اچانک ملک چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے نیروبی سے اپنے سفارت کار کو واپس بلا لیا تھا۔

اس جنوبی صومالی ریاست کی سرحد کینا سے ملتی ہے جس میں ملک کی معروف بندرگاہ کسمائیو واقع ہے اور ممکنہ طور پر منافع بخش تیل اور گیس کے بڑے ذخائر  بھی جبّہ لینڈ کے ساحل پر پائے جاتے ہیں۔

صومالیہ میں حملہ، متعدد ہلاکتوں کا خدشہ

کینیا کی حکومت نے منگل کے روز صومالیہ کی جانب سے اٹھائے گئے ان تازہ اقدامات پر براہ راست کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ لیکن 2019 ء میں جب موغا دیشو نے تیل اور گیس کے ذخائر کو نیلام کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے رد عمل میں کینیا نے بھی اپنے سفارت کار کو واپس بلا لیا تھا۔ اس کے بعد گزشتہ برس نومبر میں دونوں ملکوں نے دوبارہ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔

منگل کے روز کینیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان سائرس اوگونا نے البتہ ایک بیان میں کہا کہ تقریبا دو لاکھ صومالی مہاجرین کو پناہ گزینوں کے کیمپوں میں جگہ دینے میں کینیا کافی مہربان رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، "ان دونوں ملکوں کے درمیان بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔"

امن فوج کے باجود صومالیہ میں کشیدگی

سن 1990 کے عشرے کے اوائل سے جنگ زدہ صومالیہ شدت پسندوں کے حملوں کی زد میں رہا ہے۔ موغادیشو کی حکومت افریقی یونین کے زیر قیادت تعینات امن فوج اور ملک میں موجود تقریبا 700 امریکی فوجیوں کی مدد سے شدت پسند تنظیم الشباب کے اثر ورسوخ والے کچھ علاقوں کو واپس لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ 

افریقی یونین کی قیادت میں تعینات امن فوج میں کینیا کی فوج کا بھی ایک بڑا حصہ ہے۔ شدت پسند موغادیشو کو بم دھماکوں سے مسلسل نشانہ بناتے رہے ہیں۔ باغیوں نے 17 نومبر کو بھی دارالحکومت موغادیشو کے ایک پولیس اسٹیشن کو نشانہ بنایا تھا۔

گزشتہ 27 نومبر کو آئس کریم کی ایک دوکان پر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری بھی القائدہ سے منسلک شدت پسند تنظیم الشباب نے لی تھی۔ انہی حالات کے پیش نظر دو ہفتے قبل ہی پینٹاگون نے صدر ٹرمپ کے صومالیہ سے امریکی افواج کے انخلاء کے حکم کو مسترد کر دیا تھا۔

ص ز/ ک م (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی) 

موغادیشو میں تباہ کن حملہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں