1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ کا صومالیہ سے بھی امریکی فوجیوں کے انخلاء کا فیصلہ

5 دسمبر 2020

امریکی صدر نے مختلف ممالک میں تعینات ملکی فوجیوں کی واپسی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے صومالیہ سے بھی امریکی فوجیوں کو واپس طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3mGNj
Somalia Symbolbild US Soldaten | General Damian T. Donahoe
تصویر: Senior Airman Kristin Savage/Combined Joint Task Force - Horn of Africa/AP Photo/picture alliance

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق اور افغانستان کے بعد اب شورش زدہ افریقی ملک صومالیہ سے بھی ملکی افواج کے انخلاء کا حکم جاری کیا ہے۔ صومالیہ میں سات سو امریکی فوجی تعینات ہیں۔ ان فوجیوں کی تعیناتی کا مقصد القاعدہ سے وابستگی رکھنے والی انتہا پسند مسلح تنظیم الشباب کی پرتشدد کارروائیوں کو کنٹرول کرنے کی صومالی فوج کی کوششوں کو تقویت دینا ہے۔

صوماليہ ميں دہشت گردوں کا بڑا حملہ

قبل ازیں صدر ٹرمپ افغانستان اور عراق میں بھی متعین فوجیوں میں کمی کرتے ہوئے ایک بڑی تعداد میں اپنے فوجیوں کے انخلاء کا اعلان کر چکے ہیں۔ ٹرمپ مسلسل اپنے فوجیوں کی واپسی کا تذکرہ کرتے رہے ہیں اور اب یہ فیصلہ بھی انہی بیانات کا تسلسل ہے۔ ٹرمپ کے پلان کے تحت عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد تین ہزار سے کم کر کے ڈھائی ہزار اور افغانستان سے پانچ ہزار فوجیوں کی تعداد نصف کرنے کے فیصلے کیے جا چکے ہیں۔

Somalien Rebellen Black Hawk Down
صومالی باغی جنگلات میں گھات لگائے کھڑے ہیںتصویر: John Moore/Getty Images

امریکی فوج کا صومالی مشن

یہ امر اہم ہے کہ امریکی عوام اور تجزیہ کاروں میں صومالی مشن پر کوئی زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی گئی لیکن ملکی وزارتِ دفاع کے نزدیک یہ مشن خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ صومالی مشن بھی القاعدہ اور اس کے نیٹ ورک کے خلاف پینٹاگون (امریکی وزارتِ دفاع کا صدر دفتر) کی بین الاقوامی عسکری عملی کوششوں کا ایک اہم باب خیال کیا جاتا ہے۔

صومالیہ اور اس کے ہمسایہ ممالک میں دہشت گرد تنظیم الشباب نے اپنے خونی حملوں سے خوف و ہراس کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ اس تنظیم کے عسکریت پسندوں کے خلاف صومالی فوج کی معاونت اور مدد امریکی فوجیوں کی ذمہ داری تھی۔

کينيا اور امريکا کے مشترکہ فوجی اڈے پر جہاديوں کا حملہ

صومالیہ سے انخلاء اور ہمسایہ ملکوں میں تعیناتی

صومالیہ سے امریکی فوج کے انخلاء کے صدارتی حکم میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کچھ فوجی شورش زدہ ملک کے ہمسایہ ملکوں میں رکھے جائیں گے تا کہ وہ کسی فوجی کارروائی کی ضرورت میں سرحد عبور کر کے صومالی فوج کی مدد کر سکیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکی فوجی صومالیہ کے کن ہمسایہ ممالک میں متعین کیے جائیں گے۔

رواں برس نومبر میں وزیرِ دفاع کے منصب سے برخاست کیے جانے والے مارک ایسپر صومالیہ میں امریکی فوجیوں کے انخلاء کے مخالف تھے۔ اس کے علاوہ امریکی عسکری انسپیکٹرز نے بھی اس انخلاء کے منصوبے کی مخالفت کی تھی۔ صومالیہ سے نکلنے والے فوجیوں کی اگلی تعیناتی کا وقت قریب وہی ہو گا جب ٹرمپ مسند صدارت سے فارغ ہو کر جا رہے ہوں گے۔ نومنتخب صدر جو بائیڈن اگلے سال بیس جنوری کو صدارتی منصب سنبھالیں گے۔

Kindersoldat Somalia Mogadischu
عسکری تنظیم الشباب میں شامل کم عمر فائٹرتصویر: picture-alliance/dpa

فوجیوں کا انخلاء پالیسی میں تبدیلی نہیں

امریکی عسکری ہیڈ کوارٹرز پینٹاگون کے اعلان کے مطابق صومالیہ سے فوج اور ساز و سامان کی نئی تعیناتی سن دو ہزار اکیس کے اوائل میں مکمل ہو گی اور یہ اس ملک کے لیے طے شدہ امریکی پالیسی میں تبدیلی کا باعث نہیں ہو گی۔ اس اعلان میں کہا گیا کہ پرتشدد انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے کی پالیسی میں بھی کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ اس میں تبدیلی سے امریکا کی داخلی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

پینٹاگون کے مطابق اب تک حاصل کی گئی اسٹریٹیجک برتری کو کسی بھی صورت میں ضائع نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ صومالیہ سے امریکی فوجیوں کی واپسی سے اس ملک میں طاقت کا توازن خراب ہونے کا قوی امکان ہے اور قرن افریقہ میں مسلح عسکریت پسندی کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔

ع ح، ع آ (روئٹرز)