روس شام پر دباؤ بڑھائے، امریکا
15 فروری 2014امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہیرف نے کہا ہے: ’’ظاہر ہے، روسیوں کو شام کی حکومت پر پہلے کے مقابلے میں زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
جنیوا ٹُو کے نام سے جانی جانے والی اس بات چیت کا سلسلہ امریکا اور روس نے ہی شروع کیا ہے۔ ماسکو حکومت بشار الاسد کی حامی ہے جبکہ واشنگٹن انتظامیہ شام کے اپوزیشن اتحاد کی حمایت کرتی ہے۔
اس بات چیت کا پہلا مرحلہ گزشتہ ماہ شروع ہوا تھا جسے کسی حد تک کامیاب خیال کیا گیا تھا۔ اس مرحلے میں فریقین پہلی مرتبہ آمنے سامنے بیٹھنے پر تیار ہوئے تھے جو ایک اہم پیش رفت تھی۔ رواں ہفتے دمشق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کے ایجنڈے پر ہی اتفاق نہیں ہو سکا۔
یہی وجہ ہے کہ جنیوا مذاکرات کی ناکامی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس امن عمل کے ذریعے کی جانے والی کوشش ناکامی کے دھانے پر کھڑی ہے۔
عالمی مندوب لخضر براہیمی اس مرحلے کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے وہ آج بروز ہفتہ فریقین سے حتمی ملاقات کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے جمعے کی شب ایک بیان میں کہا کہ براہیمی نے فریقین کو ایک حتمی ملاقات کی دعوت دی ہے جو ہفتے کو متوقع ہے۔
قبل ازیں شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے جمعے کو براہیمی سے ملاقات کی تھی۔ بعدازاں ان کا کہنا تھا کہ جنیوا امن بات چیت کے اس مرحلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ دوسری جانب اپوزیشن نے ڈیڈ لاک کی ذمہ داری دمشق حکومت پر ڈال دی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق شام میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے تناظر میں تین سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ اس لڑائی میں ایک لاکھ 36 ہزار افراد سے زائد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں اپنا گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔
تشدد کا سلسلہ بدستور جاری ہے جو ہلاکتوں میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ جمعے کو شام کے شمالی صوبے درعا میں ایک مسجد کے باہر ایک خود کش حملے کے نتیجے میں 47 افراد ہلاک ہو گئے۔ سیریئن آبزرویٹری کے مطابق جنیوا امن مذاکرات کے آغاز سے اب تک شام میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔