1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حمص میں امدادی قافلے پر حملہ

ندیم گِل9 فروری 2014

شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے حمص میں ایک امدادی قافلے پر راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی قیادت میں درجنوں محصور شہریوں تک خوراک اور دوائیں پہنچانے کا آپریشن خطرے میں پڑ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1B5dd
تصویر: Reuters

اقوام متحدہ کی قیادت میں امدادی ادارے حمص میں پھنسے ہوئے قریب ڈھائی ہزار افراد کو خوراک اور دوائیں پہنچا رہے ہیں جبکہ وہاں سے لوگوں کو نکالنے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔

شامی عرب ہلالِ احمر (ایس اے آر سی) کا کہنا ہے کہ ہفتے کو ایک مارٹر اس کے ایک قافلے کے قریب گرا۔ اس ادارے کے مطابق اس کے ٹرکوں پر فائرنگ بھی کی گئی ہے جس کے نتیجے میں اس کا ایک ڈرائیور زخمی ہو گیا ہے۔

ہلالِ احمر کے مطابق اقوام متحدہ سمیت اس کی اپنی کم از کم نو گاڑیاں حملے کے بعد گھنٹوں شہر میں پھنسی رہیں۔ امدادی ٹیم ہفتہ آٹھ فروری کو مقامی وقت کے مطابق شب دس بجے سے کچھ دیر پہلے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئی۔ تاہم انہیں اپنی دو گاڑیاں وہیں چھوڑنا پڑیں۔

ہلالِ احمر نے ایک بیان میں مزید کہا کہ اگرچہ اس کی ٹیم پر شیلنگ اور فائرنگ کی گئی، پھر بھی حمص میں خوراک کے ڈھائی سو پارسل، دوائیں اور دیگر امدادی سامان تقسیم کیا گیا۔

Syrien - Erster Hilfskonvoi erreicht belagerte Altstadt von Homs
امدادی کارکن ہفتے کو حمص پہنچےتصویر: Reuters/Thaer Al Khalidiya

شام کی حکومت نے باغیوں کو اس حملے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس کے برعکس حکومت مخالفین نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ حملہ بشار الاسد کی فورسز نے کیا۔

دمشق حکومت اور باغیوں کے درمیان اقوام متحدہ کی ثالثی میں ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ اس کے نتیجے میں حمص میں امدادی کارروائیوں کے لیے سیز فائر کا نفاذ عمل میں آیا ہے۔ فائر بندی جمعے کو تین روز کے لیے ہوئی تھی اور آج اتوار کو اس کا آخری دِن ہے۔

یہ معاہدہ جنیوا امن مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا تھا جو پیر 10 فروری کو بحال ہو رہے ہیں۔ شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ مندوب لخضر براہیمی اس امن بات چیت کے دوران امدادی سامان کی فراہمی اور قیدیوں کی رہائی پر زور دے رہے ہیں۔ اُمید کی جا رہی ہے کہ ان نکات پر پیش رفت کے نتیجے میں اقتدار کی منتقلی کے زیادہ پیچیدہ مسئلے کی حل میں بھی مدد ملے گی۔

شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف بغاوت 2011ء میں شروع ہوئی تھی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس وقت سے وہاں ایک لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔