1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بلوچوں کا قومی دن‘: بلوچستان میں ہڑتالیں اور مظاہرے

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ13 نومبر 2013

پاکستان کے شورش زدہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں آج بدھ تیرہ نومبر کو بلوچ قوم پرست جماعتوں اور علیحدگی پسند کالعدم تنظیموں کی اپیل پر ’بلوچوں کا قومی دن‘ منایا گیا۔

https://p.dw.com/p/1AGXW
تصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

اس موقع پر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور دیگر اضلاع میں شٹر ڈاؤن ہڑتالیں کی گئیں اور مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا، جن میں بلوچ نوجوانوں، خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مظاہرین نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور اقوام متحدہ سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
ان مظاہروں میں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ حالت میں ملنے والی لاشوں اور صوبے کے بعض علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے امن عامہ کی بحالی کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کے خلاف، جنہیں بلوچ قوم پرست جماعتیں اپنے علاقوں میں فوجی آپریشن سے تعبیر کرتی ہیں، احتجاج کیا گیا۔

Pakistan Proteste am Baloch National Tag
ان مظاہروں میں بلوچ مردوں، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔تصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

آج بدھ کو بلوچ سالویشن فرنٹ، بی ایس ایف، بلوچ قومی یکجہتی کمیٹی اور بلوچ نیشنل وائس سمیت کئی تنظیموں کی اپیل پر صوبائی دارلحکومت کوئٹہ اور مستونگ، قلات، نوشکی، پنجگور، تربت، دالبندین، کاہان اور دیگر اضلاع میں شٹر ڈاؤن ہرتال کی گئی اور ضلعی صدر مقامات پر احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا گیا۔
ان مظاہروں میں بلوچ مردوں، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کوئٹہ میں بلوچ خواتین کی جانب سے مقامی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں شریک خواتین نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صوبے میں ہونے والی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا الزام پاکستانی ریاستی اداروں پر عائد کیا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ بلوچستان میں ایسی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے بلوچوں کے حق خود ارادیت کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستان کے دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود کے مطابق بلوچستان کے دیرینہ سیاسی مسائل کے حل کے لیے ن لیگ کی موجودہ حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا تاکہ صوبے میں حکومت مخالف گروپوں کے تحفظات دور ہو سکیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان میں آپریشن کے بجائے مفاہمت کی پالیسی کو تقویت دے۔ ان کا کہنا تھا، ’’بلوچستان کے جو معاملات ہیں، انہیں سیاسی بنیادوں پر حل کیا جائے اور فوجی آپریشن یا اس نوعیت کے دیگر جو عوامل ہیں، ان پر انحصار نہ کیا جائے۔ اور دوسری بات یہ کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا جو معاملہ ہے، اگر اس پر زیادہ توجہ دی جائے تو میرے خیال میں کوئی وجہ نہیں کہ بلوچستان کے حالات میں خاطر خواہ بہتری نہ آئے۔‘‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی بھی یہی سمجتھے ہیں کہ بلوچستان کے حالات میں بہتری کے لیے دعووں کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’بلوچستان کے جو لوگ ہیں، جو قبائلی عمائدین ہیں، ان کو ساتھ ملایا جائے، تاکہ انہیں یہ احساس ہو کہ ان کے مسائل کے حل کی ضرورت کا حکومت کو سنجیدگی سے احساس ہے۔ اور ایسا پروگرام مرتب کیا جائے، جس میں لوگوں کو بہتری دکھائی دی۔ لوگ خوف زدہ نہ ہوں۔ انہیں سکیورٹی ملے۔ جب ماحول بہتر ہو گا تو صوبے کے حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔‘‘
بلوچستان میں لاپتہ سیاسی کارکنوں کی بازیابی اور صوبے میں مبینہ فوجی آپریشن کے خلاف وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کی جانب سے چند روز پہلے کوئٹہ سے لانگ مارچ بھی شروع کٓیا گیا تھا۔ اس مارچ کے شرکاء کئی دنوں کی مسافت کے بعد کل منگل کے روز صوبے کے صنعتی شہر حب پہنچے تھے۔ یہ مارچ شرکاء کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی پہنچنے پر ختم ہو گا۔

Pakistan Proteste am Baloch National Tag
مظاہرین نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور اقوام متحدہ سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیاتصویر: DW/Abdul Ghani Kakar
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں