1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کریں گے، وزیر اعلیٰ بلوچستان

رفعت سعید، کراچی28 اکتوبر 2013

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک نے کہا ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ صوبے میں حکومت کی رٹ نہیں ہے مگریہ صورتحال کچھ علاقوں تک محدود ہے تاہم وہ حالات میں بہتری کے لیے بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کریں گے۔

https://p.dw.com/p/1A7Rg
تصویر: Getty Images

ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ بلوچستان نے کراچی میں ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ طالبان کی طرح ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لیے انہوں نے دسمبر میں ایک اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا ہے جو مذاکرات کا روڈ میپ طے کرے گی۔ ان کے بقول ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لیے کئی آپشن زیرغور ہیں۔

جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے یہ پوچھا گیا کہ علیحدگی پسند تو پاکستانی آئین کو ہی نہیں مانتے تو ان سے بات چیت کیسے ہو گی، تو وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات پاکستانی آئین کی روشنی میں ہی ہوں گے اوراس کا روڈ میپ کل جماعتی کانفرنس میں طے کیا جائے گا۔

جب وزیر اعلیٰ سے بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ اس پر تبصرے سے گریز کرتے رہے تاہم آف دی ریکارڈ گفتگو میں انہوں نے بلوچستان میں بیرونی مداخلت کی تصدیق کی اور اسے روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زوردیا۔

Pakistan Erdbeben in Awaran 27. September
حالیہ زلزلے کے متاثرین کی بحالی کے لیے تیس سے چالیس ارب روپے تک درکار ہو‍ں گے، عبدالمالک بلوچتصویر: picture-alliance/Photoshot

ڈاکٹرعبدالمالک نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونے تک مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ صوبائی وزیر اعلیٰ نے اس تاثرکو غلط قرار دیا کہ جو بھی بلوچستان جائے گا، مارا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے مقابلے میں بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اب بہتر ہو رہی ہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ میں بھی کمی ہوئی ہے۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ برہمداغ بگٹی سمیت کسی بلوچ لیڈرسے ان کا رابطہ نہیں ہوا مگران کی ذاتی خواہش ہے کہ برہمداغ بگٹی سمیت تمام ناراض لوگوں سے بات کر کے انہیں مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔

ڈاکٹر بلوچ نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ بلوچستان کا حل آئین پاکستان میں موجود ہے، اس کے لیے قومی اداروں کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ زلزلہ متاثرین کی مکمل بحالی کے لیے تیس سے چالیس ارب روپے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں وہ جلد ہی وزیر اعظم نواز شریف سے بات چیت کریں گے۔

ڈوئچے ویلے کے ساتھ اس انٹرویو میں ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کوشیشں جاری ہیں۔ ان کے بقول اگر وہ اپنی ان کوششوں میں ناکام رہے، تو ان کی ناکامی ورکنگ کلاس کی ناکامی ہو گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں