1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران جوہری مذاکرات بحال کرنے کے لیے فریقین ویانا روانہ

4 اگست 2022

ایران، امریکہ اور یورپی یونین جوہری مذاکرات میں شرکت کے لیے اپنے اعلیٰ نمائندے ویانا بھیج رہے ہیں۔ رواں ہفتے شروع ہونے والی اس بات چیت کو سن 2015 کے ایران جوہری مذاکرات کو بحال کرنے کی آخری کوشش قرار دیا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4F5t9
Österreich | Atomgespräche mit dem Iran
تصویر: EU Delegation in Vienna/Handout/AFP

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ اچانک شروع ہونے والی اس کانفرنس میں تاریخی معاہدے کے تمام فریقین شرکت کریں گے؟ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ مہینوں تک تعطل سے دوچار نیز دوحہ میں ایران اور امریکہ کے مابین بالواسطہ غیر نتیجہ بخش مذاکرات کے بعد سے کیا کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔

مذاکرات کی صدارت کرنے والے یورپی یونین کے عہدیدار اینرک مورا نے کہا کہ مذاکرات کے دوران معاہدے کو بحال کرنے کے حوالے سے تازہ ترین مسودے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ دوسری طرف ایران کے جوہری مذاکرات کار علی باقری کنی نے بتایا کہ وہ مذاکرات شرو ع کرنے کے لیے آسٹریائی دارالحکومت روانہ ہو رہے ہیں۔

تحفظات برقرار لیکن امیدیں باقی

ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی راب میلی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ مذاکرات کے لیے ویانا جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ مذاکرات شروع ہونے سے قبل امریکہ کو اب بھی بہت سے تحفظات ہیں۔

انہوں نے کہا، "امریکہ یورپی یونین کی کوششوں کا خیر مقدم کرتا ہے اور نیک نیتی کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کا خواہش مند ہے۔ لیکن یہ بات کچھ دیر میں ہی صاف ہوسکے گی کہ آیا ایران بھی اس کے لیے تیار ہے یا نہیں۔"

اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی نے بدھ کے روز کہا کہ ایران اپریل 2021 سے ہی "نیک نیتی" کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ سن 2015 کا معاہدہ پوری طرح نافذ ہوجائے۔ انہوں نے کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کے لیے امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا۔

اس دوران ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا، "بات چیت کے اس دور میں، جو سابقہ کی طرح یورپی یونین کی مدد سے ہوگی، مختلف فریقین کی جانب سے پیش کیے جانے والے آئیڈیاز پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔" ترجمان نے کہا کہ تہران ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیار ہے جو اس کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بوریل نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ انہوں نے جوہری معاہدہ کی بحالی کی امید کے ساتھ ایک نیا مسودہ پیش کیا ہے۔

مذاکرات میں روس کے اعلیٰ نمائندے میخائل الیانوف نے ٹویٹ کرکے کہا کہ،"روسی مذاکرات کارمعاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے تعمیری بات چیت کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔"

جرمن وزارت خارجہ نے برلن میں بتایا کہ ایک اعلیٰ سطحی ماہرین کی ٹیم ویانا مذاکرات میں حصہ لے گی۔ انہوں نے کہا کہ"اگر معاہدے کو بحال ہونے کی امید بہت کم ہو تب بھی" جرمنی اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔

Iran IR 6 Zentrifugen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/IRIB

'ایران کا جوہری پروگرام بہت آگے جا چکا ہے'

اقوام متحدہ کے ایٹمی توانائی کی ایجنسی کے سربراہ رفائل گروسی نے منگل کو کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام ''پورے عزائم اور صلاحیت کے ساتھ بڑھ رہا ہے'' اوران کی ایجنسی کو ایران کے جوہری پروگراموں کے تمام پہلوؤں کی تصدیق کے لیے مکمل رسائی کی ضرورت ہے۔

گروسی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ''ایرانیوں کا خود کہنا ہے کہ وہ آگے بڑھ رہے ہیں اورحیرت انگیز پیش رفت کر رہے۔ ان کا پروگرام بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔"

انہوں نے ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں کہا کہ ''وہ مقاصد اور صلاحیت کے اعتبار سے بڑھ رہا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ واضح طور پر، ہمیں اس پروگرام کی خصوصیات کے مطابق رسائی کی ضرورت ہے۔''

Österreich | Atomgespräche mit dem Iran
ایران کے جوہری مذاکرات کار علی باقری کنی تصویر: Joe Klamar/AFP

معاہدے کو بحال کرنا ضروری کیوں ہے؟

سن 2015 میں، برطانیہ، چین، فرانس، امریکہ اور جرمنی نے ایران کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن، یا JCPOA کہا جاتا ہے۔ ایران جوہری معاہدہ کے نام سے معروف اس معاہدے کے تحت تہران کو اس کے جوہری پروگرام محدود کرنے کے بدلے اس کے خلاف پابندیوں میں نرمی کا وعدہ کیا گیا تھا۔

تاہم سن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو یک طرفہ طورپر معاہدے سے الگ کرلیا اور ایران کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کردیا۔ ایران نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز کردیں۔ حالانکہ وہ بار بار اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ وہ جوہری بم بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید