1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورینیم مسئلے پر امریکہ اور جرمنی کی ایران پر نکتہ چینی

9 جون 2022

مغربی طاقتوں نے ایک قرارداد میں ایران سے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے ساتھ تعاون کرے۔ اسرائیل اور سعودی عرب نے اس قرارداد کی تعریف کی ہے دوسری طرف تہران نے اس کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4CRVV
IAEA-Flagge
تصویر: AFP/J. Klamar

جوہری سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز نے بدھ کے روز ایک قرار داد منظور کرکے ایران پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ تہران غیر اعلانیہ مقامات پر ملنے والے یورینیم کے ذرات کی موجودگی کے حوالے سے وضاحت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

 امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایران کے اس رویے پر نکتہ چینی کی ہے۔ تاہم اس سے قبل ہی ایران نے ان دو کیمروں کو بند کردیا تھا جنہیں اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے یورینیم کی افزودگی پر نگاہ رکھنے کیے نصب کیے تھے۔

اب تک ہمیں کیا معلوم ہے؟

امریکہ برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے 35 رکنی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو ایک مشترکہ قرارداد پیش کی، جس کی تائید 30 دیگر ملکوں نے بھی کی ہے تاہم روس اور چین نے اس کی مخالفت کی۔

اس قرارداد میں کہا گیا ہے، "ہم ایران سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی قانونی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بین الاقوامی برادری کی مطالبات پر عمل کرے اور آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور تمام حل طلب معاملات کو بلاتاخیر حل کرے۔"

اس میں مزید کہا گیا ہے، "اگر ایران ایسا کرتا ہے اور ڈائریکٹر جنرل ہمیں یہ رپورٹ دیتے ہیں کہ تمام دیرینہ معاملات حل ہوچکے ہیں اور اب کوئی مسئلہ باقی نہیں رہ گیا ہے تو ہمیں ان امور پر بورڈ میں مزید غور و فکر اور کسی طرح کی کارروائی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔"

اس قرارداد کی منظوری سے ٹھیک پہلے آئی اے ای اے نے اپنے رکن ملکوں کو بتایا کہ ایران نے ایک زیر زمین جوہری توانائی کے پلانٹ میں آئی آر۔6 سینٹری فیوزیز کی تنصیب شروع کردی ہے۔ ایجنسی نے مزید کہا کہ تہران مزید دو کلسٹرز کا اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

ایران، اسرائیل اور سعودی عرب کا ردعمل

ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے اس قرارداد کی مذمت کی ہے اور کہا کہ تہران بین الاقوامی جوہری تفتیش کاروں سے تعاون کر رہا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ اس قرارداد کے سلسلے میں ان کے ملک کا جواب "ٹھوس اور مدلل ہے" اور اس قرارداد کو پیش کرنے والے اس کے مضمرات کے لیے ذمہ دار" ہوں گے۔

ایران نے کہا کہ اس نے جوہری مقامات کی نگرانی کرنے والے آئی اے ای اے کے دو کیمرے قرارداد کی منظوری سے قبل ہی منقطع کردیے تھے۔

دریں اثنا ایران کے جوہری پروگرام کا سخت ترین مخالف اسرائیل نے آئی اے ای اے کے فیصلے کی تعریف کی ہے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے ایک بیان میں کہا، "یہ ایک اہم قرارداد ہے جس سے ایران کا حقیقی چہرہ سامنے آگیا ہے۔" انہوں نے کہا کہ آئی اے ای اے کے اراکین نے ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول اور تیاری سے روکنے کے لیے مل کر کام کیا ہے۔

مشرق وسطی میں ایران کے کٹر حریف سعودی عرب نے بھی آئی اے ای اے کے اقدام کی تعریف کی ہے اور زوردیتے ہوئے کہا کہ "ایران کو اپنی ذمہ داریوں پر پورا اترنا چاہئے اور یہ ضروری ہے کہ وہ تمام دیرینہ جوہری معاملات کو حل کرنے کے لیے ایجنسی کے ساتھ تعاون کرے۔''

سن 2020 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ایک مشترکہ قرارداد میں ایران کے جوہری عزائم کی نکتہ چینی کی گئی۔ یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب سن 2015 کے ایران جوہری معاہدہ کو بحال کرنے کے لیے جاری مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں۔

 ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید