1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری مذاکرات کے متعلق ایران سنجیدہ نہیں ہے، امریکہ

6 جولائی 2022

ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی رابرٹ میلی کا کہنا ہے کہ ایرانی مذاکرات کاروں نے کئی نئے مطالبات شامل کردیے ہیں۔ جو اس بات کا مظہر ہے کہ ایران جوہری مذاکرات کی کامیابی کے متعلق سنجیدہ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4DiqQ
(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)تصویر: ATTA KENARE/AFP

ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی مذاکرات کار رابرٹ میلی نے منگل کے رو ز بتایا کہ ایران نے جوہری پروگرام کے حوالے سے تازہ ترین بات چیت میں کئی نئے غیرمتعلق مطالبات شامل کردیے اور اس نے یورینیم کی افزودگی میں تشویش ناک حد تک پیش رفت کرلی ہے۔

امریکی ایلچی نے کہا کہ ہم اس تجویز پر غور کر رہے تھے کہ ایران جوہری معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک مقررہ وقت کا اعلان کرے تاکہ امریکہ تہران کے خلاف عائد پابندیوں کو نرم کرسکے۔

جوہری معاہدے کو بچانے کی کوشش میں امریکہ اور ایران کے درمیان گزشتہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بالواسطہ مذاکرات کا ایک اور دور ہوا تھا لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ میلی کا کہنا تھا کہ ایرانی مذاکرات کاروں نے کئی نئے مطالبات شامل کر دیے۔

نیشنل پبلک ریڈیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں رابرٹ میلی نے بتایا، "دوحہ مذاکرات میں انہوں نے کچھ ایسے مطالبات پیش کردیے جس کے بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ ان کا جوہری معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ تو وہ چیزیں ہیں جو وہ ماضی میں چاہتے تھے۔"

ان مطالبات میں کچھ ایسے ہیں جن کے بارے میں امریکہ اور یورپ کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوسکتے۔

رابرٹ میلی
رابرٹ میلیتصویر: Rod Lamkey/CNP/picture alliance

ایران کیا مطالبہ کر رہا ہے؟

اس سے پہلے بھی ایرانی مطالبات کی عدم منظوری کی وجہ سے مذاکرات کئی ماہ تک تعطل کا شکار رہے تھے۔ تہران امریکہ سے متعدد بار یہ مطالبہ کرچکا ہے کہ وہ سپاہ پاسداران انقلاب کو دہشت گردی کی بلیک لسٹ سے ہٹادے۔ اس کے علاوہ وہ اس بات کی بھی ضمانت چاہتا ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی امریکی انتظامیہ اس مجوزہ معاہدے سے باہر نہ نکلے، جیسا کہ سابق امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے 2018 میں کیا تھا۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ کسی بھی امریکی انتظامیہ یا عہدیدار کے لیے اس طرح کی ضمانت دینا ممکن نہیں ہے۔

دریں اثنا ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر ابوللہیان نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل کے ساتھ بات چیت کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا،"معاہدہ صرف باہمی مفاہمت اور مفادات کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ ہم ایک مضبوط اورپائیدار معاہدے کے خاطر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن امریکہ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ کوئی معاہدہ چاہتا ہے یا اپنے یک طرفہ مطالبات پر ہی مصر رہنا چاہتا ہے۔"

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بتایا کہ فی الحال مذاکرات کا کوئی نیا دور زیر غور نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران حالیہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران ناقابل قبول مطالبات پیش کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا،"ایسی کوئی بھی چیز کو شامل کرنا جو سن 2015 کے جوہری معاہدے کے دائرے سے باہر ہے، ایران کی سنجیدگی کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بدقسمتی سے دوحہ میں بھی ایک بار پھر یہی چیز دیکھنے کو ملی۔"

Iran IR 6 Zentrifugen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/IRIB

'ایران نے کافی یورینیم افزودہ کرلی ہے'

رابرٹ میلی نے نیشنل پبلک ریڈیو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اگرچہ تہران نے ابھی تک اپنا "ہتھیار سازی کا پروگرام" دوبارہ شروع نہیں کیا ہے، جس سے جوہری بم تیار کیا جاسکے۔ لیکن اس کے پاس جوہری بم بنانے کے لیے کافی یورینیم موجود ہے۔  انہوں نے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام میں ایران کی تشویش ناک پیش رفت پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔

رابرٹ میلی نے کہا کہ،"یورینیم کی افزودگی کے شعبے میں انہوں (ایران) نے جو پیش رفت کرلی ہے، اس سے ہمیں بلا شبہ چوکنا رہنا چاہئے جیسا کہ ہمارے شرکاء کار ہیں۔"

ج ا/ ص ز  (روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید