1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اومابا، شریف کی ملاقات پر پاکستانی ردعمل

شکور رحیم، اسلام آباد24 اکتوبر 2013

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ملاقات کو دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری کے شکار تعلقات میں بہتری کی طرف ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1A5aR
تصویر: Getty Images

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی گئی تھیں اور اس کے نتائج سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اپوزیشن جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے رکوانے کے معاملے پر نواز شریف کا مؤقف اپنی جگہ لیکن اس معاملے میں صدر اوباما نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے زاہد خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو امریکا میں جا کر 'اپنا گھر درست‘ کرنے کا خیال آیا ہے، جو انہیں درست کر کے ہی امریکا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم یہ توقع رکھیں کہ جو بھی ہم کہیں گے، وہ (امریکا) مان لے گا، یہ میرے خیال میں ہماری غیر سنجیدہ سوچ ہی ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکا جس طریقے سے ہمیں ڈیل کرتا ہے، اور آج سے نہیں بلکہ ساٹھ سال سے زائد عرصے سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے، میرے خیال میں اس میں کو ئی انہونی بات نہیں اور ہمیں کو ئی توقع بھی نہیں تھی کیونکہ ہم نے ان کے مفادات کا تحفظ کیا ہے، انہوں نے ہمارے مفادات کا تحفظ کبھی نہیں کیا۔‘‘

USA Pakistan Obama und Sharif
’’دونوں ممالک نے اپنی طرف سے جو کچھ ممکن تھا، اس کے اندر رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے‘‘تصویر: SAUL LOEB/AFP/Getty Images

حزب اختلاف کی جماعتوں پییپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بھی اس ملاقات میں کوئی قابل ذکر کامیابی نظر نہیں آئی۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاک امریکا تعلقات کی کشیدہ نوعیت کے تناظر میں یہ ملاقات بہت اہم تھی۔

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک ساؤتھ ایشین سٹریٹیجک سٹیبیلیٹی انسٹیٹیوٹ (ساسی) کی ڈائریکٹر جنرل ماریہ سلطان کے مطابق یہ بات قابل ‌ذکر ہے کہ دونوں رہنماؤں نے انسداد دہشت گردی، معیشت، خزانے، توانائی، سکیورٹی اور ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے شعبوں میں پانچ ورکنگ گروپ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرے ہوئے ماریہ سلطان نے کہا: ’’دونوں ممالک نے اپنی طرف سے جو کچھ ممکن تھا، اس کے اندر رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ جیسے کہ پاکستان نے دو مئی کے بعد جو کولیشن سپورٹ فنڈ کے 1.62 ارب ڈالر کے خرچے کی رسید امریکا کو نہیں دی تھی، جس کا مطلب تھا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کسی قسم کا تعاون نہیں چاہتا۔ اب پاکستان نے وہ رقم مانگی ہے، تو امریکہ نے جاری کر دی ہے۔‘‘

Pakistan Premierminister Nawaz Sharif
حکمران جماعت وزیر اعظم نواز شریف کے اس دورے کو انتہائی کامیاب اور دور رس نتائج کا حامل قرار دے رہی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

وزیر اعظم نواز شریف نے امریکا رونگی سے قبل اور پھر صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کے بعد بھی پاکستانی قبائلی علاقوں میں بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں کو رکوانے کے معاملے پر بات کی تھی۔ دفاعی تجزیہ کا ر ائیر مارشل (ر) مسعود اختر کا کہنا ہے کہ امریکی خبار واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کے بعد موجودہ پاکستانی حکومت کے لیے اپنی پوزیشن واضح کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے، جس کے مطابق پاکستانی حکام ڈرون حملوں کی توثیق کرتے رہے ہیں بلکہ اس بارے میں انہیں امریکی حکام بریفنگ بھی دیتے رہے ہیں۔

مسعود اختر کا کہنا ہے، ’’دونوں ملکوں نے مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جب تک ہمارے ہاں ایسے علاقے موجود ہیں، جہاں سے خطے میں اور بالخصوص افغانستان میں امریکا کے مفادات پر حملے ہوتے رہیں گے، تو ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے کیونکہ یہ امریکا کے اہم ترین قومی مفاد میں ہے۔‘‘

ادھر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اپنے رہنما اور وزیر اعظم نواز شریف کے اس دورے کو انتہائی کامیاب اور دور رس نتائج کا حامل قرار دے رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں