1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف مزاحمت کا اعلان

عبدالستار، اسلام آباد
3 ستمبر 2021

پاکستانی صحافتی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے حکومت کے مجوزہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس بل کو پاس کرنے سے باز رہے بصورت دیگر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

https://p.dw.com/p/3ztBa
Journalisten protestieren in Pakistan Pressefreiheit Zensur
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Arbab

یہ وارننگ قومی اسمبلی کے ایک ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے جو جمعرات دو ستمبر کو پیمرا کے ہیڈ کوارٹرز میں ہوا تھا، جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اس بل کے حوالے سے کچھ اہم نکات کا تذکرہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد میڈیا کارکنان کے حقوق کا دفاع کرنا اور جعلی خبروں کی روک تھام ہے۔ جبکہ اتھارٹی کے قیام کے بعد بہت سارے اداروں کو ضم کر دیا جائے گا اور میڈیا سے متعلق کئی معاملات کو احسن طریقے سے نمٹایا جائے گا۔

اب کسی صحافی پر حملہ نہ ہو، حامد میر کی تنبیہ

بل کا مقصد اختلافی آوازوں کو دبانا

تاہم صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حکومت بل اس لئے لا رہی ہے تاکہ اختلافی آوازوں کو دبایا جاسکے اور ملک میں آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جا سکے، جس کی صحافتی برادری بھرپور مزاحمت کرے گی۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے بھی حکومت پر یہ بات واضح کی ہے کہ وہ اس بل کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کریں گے اور ہر محاذ پر مخالفت کریں گے۔

#Speakup Barometer Pakistan
صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حکومت بل اس لئے لا رہی ہے تاکہ میڈیا پر اختلافی آوازوں کو دبایا جاسکےتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

سیاسی جماعتوں کی مخالفت

اس بل کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ اس پارٹی  کے رہنما بلاول بھٹو زرداری مخالفت کر چکے ہیں۔ 

جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے ایک رہنما جلال الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ بل پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے مارشل لا ہے اور یہ بالکل غیر آئینی ہے جس کی ہم ہر سطح پر مخالفت کریں گے۔ صحافیوں کے ایک وفد نے مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات کی ہے۔

پاکستان میں ایک اور صحافی قتل

پاکستان مسلم لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان مسلم لیگ ن نہ صرف ایسی کسی بھی قانون سازی کی ڈٹ کر مخالفت کر رہی ہے بلکہ ایسی صحافت دشمن سوچ کی مذمت بھی کرتی ہے۔ یہ اتھارٹی صحافیوں سے ان کا قلم، ضمیر کی آواز کو قتل کرنے کے لیے، جرمانے اور لالچ سے لیس شقوں پر مشتمل ہے۔"

صحافتی برادری سیخ پا

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اس بل کا مقصد حکومتی کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اس بل کے ذریعے اخبارات کی کلیکشن کو مشکل بنایا جارہا ہے، صحافیوں کو سزا دی جا رہی ہے اور یوٹیوب چینلز کے قیام کو بھی نا ممکن بنایا جا رہا ہے۔"

'پاکستانی ریاست صحافت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ‘

ان کا کہنا تھا کہ پورے ملک کی صحافتی برادری اس مجوزہ بل پر سیخ پا ہے اور اسے غیر قانونی اور غیر آئینی سمجھتی ہے۔ "ہم 13 ستمبر کو ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کریں گے اور اس میں ملک بھر کی سیاسی جماعتیں بھی ہمارے ساتھ ہوں گی اورسول سوسائٹی بھی ہمارے ساتھ ہوگی۔"

World Press Freedom Day | Pakistan 2005
پریس فریڈم ڈے پر کیے گئے مظاہرے میں گرفتار کیا گیا ایک صحافی: فائل فوٹوتصویر: Ripja/dpa/picture-alliance

اسٹیبلشمنٹ کے اختراع

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے رکن فیڈرل ایکٹ کمیٹی ناصرملک کا کہنا ہے کہ یہ بل دراصل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اختراع ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "فواد چودھری صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ بل بس خیال کی حد تک ہے اور یہ کہ اس پر مختلف لوگوں سے مشورہ کیا جائے گا لیکن میری اطلاعات یہ ہیں کہ اس بل کو باقاعدہ وزارت قانون کی منظوری کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور حکومت ہر حالت میں اسے پاس کرنے کی کوشش کرے گی۔‘‘

'پاکستانی حکام بیرون ملک صحافیوں کو دھمکیاں دینے سے باز رہیں‘

ناصر ملک مزید کہتے ہیں، ''جنرل مشرف کے دور سے اس طرح کی کوشش کی جا رہی ہے اور ماضی میں صحافتی تنظیموں کی مذمت کی وجہ سے ان کو اپنا ارادہ منسوخ کرنا پڑا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت بالکل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہتی ہے۔"

ان کے بقول "اس قانون کے ذریعے پوری میڈیا انڈسٹری کو ایک 21 گریڈ کا آفیسر کنٹرول کرے گا اور پوری میڈیا انڈسٹری سرکار کے دیے گئے احکامات پر عمل کرے اور ان کی گائیڈ لائنز کو تسلیم کرے۔"