1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسیحی لڑکی تبدیلی مذہب اور رشتے سے انکار کرنے پر قتل

5 دسمبر 2020

پاکستان میں مسیحی برادری کی جانب سے ایک نوجوان مسیحی لڑکی کے قتل کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔ مقتولہ سونیا بی بی نے مبینہ طور پر ایک مسلمان شخص سے شادی کے لیے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے انکار کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3mGJ9
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل
سونیا بی بی ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔تصویر: picture-alliance/dpa/Keystone USA Falkenberg

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں تیس نومبر کو ایک چوبیس سالہ مسیحی لڑکی سونیا بی بی کو مبینہ طور پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ سونیا بی بی راولپنڈی کے گھروں میں ملازمہ کےطور پر کام کرتی تھی۔ یونین آف کیتھولک ایشین نیوز (یو سی اے این) کی رپورٹ کے مطابق سونیا کو تیس نومبر کی صبح ساڑھے نو بجے راولپنڈی کے فضائیہ اسٹاپ پر سر میں گولی ماری گئی۔ سونیا ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔

قتل کی وجہ تبدیلی مذہب یا رشتے سے انکار؟

کیتھولک نیوز ایجنسی کے مطابق مقتولہ سونیا کے والدین سے شہزاد نامی ایک مسلمان شخص نے شادی کے لیے رشتہ مانگا تھا۔ تاہم سونیا کے والد اللہ رکھا مسیح نے اس رشتے سے انکار کر دیا کیونکہ ’لڑکی کا تعلق مسیحی عقیدے سے جبکہ لڑکا مسلمان تھا۔‘

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل
پاکستان میں مسلمان مردوں سے شادی سے انکار کرنے پر اکثر مسیحی خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/Keystone USA Falkenberg

مقتولہ کے والد نے یو سی اے نیوز سے بات کرتے ہوئے سونیا کے قتل کا الزام شہزاد اور اس کے ایک دوست پر عائد کیا ہے۔ اللہ رکھا مسیح کے بقول، ’’شہزاد میری بیٹی کا پانچ ماہ سے پیچھا کر رہا تھا اور رشتے سے انکار کے بعد اس نے سونیا کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی تھی۔‘‘

مزید پڑھیے: کم عمر پاکستانی مسيحی لڑکی: مذہب کی مبينہ تبدیلی اور شادی، تفتيش جاری

سونیا بی بی کی والدہ نے اپنی بیٹی کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پولیس نے مسلمان ملزم شہزاد کو حراست میں لے لیا ہے تاہم اس واقعہ میں ملوث شہزاد کا ایک دوست ابھی تک فرار ہے۔

قتل کی مذمت

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پاکستانی مسیحی برادری نے سونیا بی بی کے قتل کی شدید مذمت کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے مذہب کے تحفظ کے عزم کی پذیرائی بھی کی ہے۔  پاکستان میں مسیحی اقلیتوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن سیمسن سلامت نے فیس بک پر #StopViolenceAgainstWomen کے ساتھ ایک پوسٹ میں لکھا، ’’چوبیس سالہ سونیا اس لڑکے کے ساتھ شادی کر کے اپنی زندگی بچا سکتی تھی لیکن اس نے یہ نہیں کیااور اس لیے اس کو قتل کردیا گیا۔‘‘

پاکستان میں خواتین کے حقوق
پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان جبری تبدیلی مذہب کو ایک ’منظم عمل‘ قرار دیتے ہیں۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

لاہور میں پروٹیسٹنٹ چرچ کے بشپ کے سابق مددگار پادری ریاض عارف ملک نے یو سی اے یو نیوز کو بتایا کہ ’’اس بہادر لڑکی نے اپنے کنبے کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے اپنے خاندان کی عزت بچائی ہے۔‘‘

پاکستانی مسیحی خواتین کے خلاف تشدد

پاکستان میں مسلمان مردوں سے شادی سے انکار کرنے پر اکثر مسیحی خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سن 2018 میں سیالکوٹ شہر میں اسی طرح کے ایک واقعے میں 25 سالہ  مسیحی لڑکی عاصمہ یعقوب مسیح کو ہلاک کیا گیا تھا۔ شادی سے انکار کرنے  کی وجہ سے ایک مسلمان لڑکے نے عاصمہ  پر تیل چھڑک کر اسے آگ لگا دی تھی۔ عاصمہ کا اسی فیصد جسم جھلس گیا تھا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے: اپنی غیرت کا غبارہ تھام کر رکھیں، عورت کو جینے دیں!

انسانی حقوق کی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں مسیحی اور ہندو مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو ہر سال مسلمان مردوں کے ساتھ شادی پر مجبور کرتے ہوئے جبری مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان اس رجحان کو ایک ’منظم عمل‘ قرار دیتے ہیں۔

ع آ / ع ح (کے این اے)

مذہب کی جبری تبدیلی، مسلمان کردار ادا کریں، کرشنا کماری

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں