1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

شمالی اور جنوبی کوریا میں تناؤ سے پر 70 برس کی جنگ بندی

27 جولائی 2023

شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جاری خونریزی سن 1953 میں جنگ بندی معاہدے کے بعد ختم ہو پائی تھی۔ تاہم دونوں میں مستقل مفاہمت کے فوری امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4USCf
جنوبی کریا کے فوجی سرحد کی نگرانی کرتے ہوئے
بعض ماہرین کے مطابق جنوبی کوریا کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کے نتیجے میں بگاڑ دیکھا جا سکتا ہے، جس کی رجہ سے مستقبل قریب میں کسی پیش رفت کے امکانات بھی بہت کم ہیںتصویر: ANTHONY WALLACE/AFP/Getty Images

شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جاری خونریزی سن 1953 میں جنگ بندی معاہدے کے بعد ختم ہو پائی تھی۔ تاہم دونوں میں مستقل مفاہمت کے فوری امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔

شمالی کوریا کی یوم فتح تقریبات میں روسی اور چینی وفود کی شرکت

اس ماہ شمالی اور جنوبی کوریا دونوں ہی جنگ بندی پر دستخط کی 70ویں سالگرہ منا رہے ہیں، جس کی وجہ سے تین سال سے جاری کوریائی جنگ کو ایک بے چین اختتام ملا تھا۔

سرحد عبور کرنے والا امریکی فوجی شمالی کوریا کی حراست میں

اس لڑائی میں 30 لاکھ جانیں گئیں اور جزیرہ نما کوریا میں امریکی اور چینی فوجیوں کو اپنے اتحادیوں کی مدد کے لیے تصادم کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ تاہم سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی دونوں کوریائی ملکوں کی جانب سے اب بھی تنازعے کو پیچھے چھوڑنے کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔

شمالی کوریا نے امریکی جاسوس طیاروں کو مار گرانے کی دھمکی دی

امریکہ اور 20 سے زائد دیگر ممالک کے وفود، جنہوں نے اقوام متحدہ کے تحت جنوبی کوریا کی حمایت کی تھی، جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں بدھ کو سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں حصہ لیا۔ وفود میں سن 1950 اور 1953 کے درمیان ہونے والے تنازع کے سابق فوجی بھی شامل ہوئے۔

جرمنی اور جنوبی کوریا کے مابین فوجی رازوں کا معاہدہ

اسی مناسبت سے شمالی کوریا نے بھی کئی فوجی و سویلین پروگرام منعقد کیے جس میں اس نے چینی اور روسی حکومتوں کے سینیئر ارکان کو پیونگ یانگ میں مدعو کیا، تاکہ یہ جشن منایا جا سکے۔ شمالی کوریا اسے یوم فتح کے طور پر مناتی ہے۔

جنوبی کوریا بچوں کی پرورش کے لحاظ سے دنیا کا مہنگا ترین ملک

شمالی کوریا اپنی بیان بازی اور فوجی طاقت کے مظاہرے کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ ابھی منگل کے روز ہی اس نے اپنے مشرقی ساحل سے درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے دو میزائل داغے تھے۔

شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی سرحد پر فوجیں
شمالی کوریا نے اہم اقتصادی دھچکے کا سامنا کیا ہے، تاہم اس کے باوجود وہ ایک فوجی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہےتصویر: Ahn Young-joon/AP Photo/picture alliance

اس ہفتے شمالی کوریا کے ایک اخبار نے اس جانب اشارہ کیا کہ پیونگ یانگ اپنے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے ایک اداریے میں کہا گیا ہے کہ ''(شمالی کوریا کی) فوجی طاقت کو مضبوط کرنے کا کوئی خاتمہ نہیں ہو سکتا۔''

اس حوالے سے مضمون میں کہا گیا ہے کہ ''دائمی امن اپنی دفاعی صلاحیت کے سب سے اوپر ہے، جو کسی بھی دشمن پر مکمل طور پر غالب آ سکتا ہے۔''

70 سالہ جنگ بندی

ایک سابق سفارت کار اور جنوبی کوریا کے سینیئر انٹیلیجنس افسر راہ جونگ کا کہنا ہے کہ ''70ویں سالگرہ کی سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ اس دوران کوئی بھی بڑا مسلح تصادم نہیں ہوا۔'' انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ بندی استحکام کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے، جس کے نتیجے میں جنوبی کوریا کو جمہوریت اور خاطر خواہ اقتصادی ترقی حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''دوسری طرف شمالی کوریا نے اہم اقتصادی دھچکے کا سامنا کیا ہے، تاہم اس کے باوجود وہ ایک فوجی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔''

راہ جونگ نے کہا کہ لیکن دونوں فریق اپنے اپنے نظریات میں قائم ہیں اور فریقین میں تعاون یا بات چیت کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے ہیں۔ جنوبی کوریائی راہ جونگ کی عمر اس وقت 10 برس کی تھی، جب سن 1950 میں شمالی کوریا کے فوجیوں نے حملہ کیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ سیول سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ شمالی کوریا کے زیر قبضہ ایک علاقے میں اس وقت تک کسی طرح محفوظ رہ سکے، جب تک کہ اقوام متحدہ کے دستوں نے حملہ آوروں کو واپس جانے پر مجبور نہیں کر دیا۔

شمالی کوریا کا سرحدی علاقہ
مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوریا کی جنگ کسی واضح فتح کے بغیر ختم ہوئی اور کمیونسٹ شمالی کوریا سرمایہ دارانہ نظام والے جنوبی کو اپنے کنٹرول میں رکھنے میں ناکام رہا تھاتصویر: MAXPPP/dpa/picture alliance

انہوں نے کہا، ''شمالی کوریا بھی اس دن کو منائیں گے جسے وہ 'وکٹری ڈے' کہتے ہیں، لیکن یہ حقیقت سے بالکل برعکس بات ہے۔ وہ جیت نہیں پائے تھے اور سوشلزم کے اپنے نظریے کے تحت کوریا کو متحد کرنے کے ان کے منصوبے ناکام ہو گئے تھے۔''

شمالی کوریا کا نقطہ نظر

مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوریا کی جنگ کسی واضح فتح کے بغیر ختم ہوئی اور کمیونسٹ شمالی کوریا سرمایہ دارانہ نظام والے جنوبی کو اپنے کنٹرول میں رکھنے میں ناکام رہا تھا۔ تاہم یہ بھی درست ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی چین اور سوویت یونین کی حمایت یافتہ کم ال سنگ کی حکومت کو گرانے میں بھی ناکام رہے تھے۔

جاپان میں قائم سینٹر فار کوریئن-امریکن پیس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کم میونگ چول، جو پیونگ یانگ کے مفادات کے لیے ایک ترجمان کے طور پر کام کرنے والی تنظیم ہے، نے اس جنگ بندی کے سات دہائیوں بعد سیول کے ساتھ جنگ اور تعلقات کے بارے میں شمالی کوریا کے نقطہ نظر کا اشتراک کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''یقیناً سالگرہ بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ امریکہ کی شکست کے 70 سال کی تکمیل ہے۔ امریکہ کوریا کی جنگ سے پہلے کبھی جنگ نہیں ہارا تھا، لیکن جب ہم نے اسے شکست دی تو اس کے بعد وہ جنگیں ہارنے لگا جیسے ویت نام اور افغانستان میں۔ ہم نے دوسرے ممالک کو دکھایا کہ امریکہ کو شکست دی جا سکتی ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''اور اب تو ہمارے پاس آئی سی بی ایم اور جوہری ہتھیار بھی ہیں اس لیے ہم مضبوط ہیں اور امریکہ کو معلوم ہے کہ وہ ہمیں ہرا نہیں سکتا۔''

انہوں نے یہ بھی کہا کہ شمالی کوریا کے ''جنوبی کوریا کے ساتھ کسی طرح کے تعلقات نہیں ہیں اور ہمیں ان کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہمارے پاس کوئی سفارتی رابطہ نہیں ہے اور ہمیں صرف امریکہ سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اور امریکہ سے نمٹنے کا واحد راستہ طاقت ہے۔''

سیول کی 'سن شائن پالیسی' سے دوری

چینگنم نیشنل یونیورسٹی میں سیاست اور اخلاقیات کی پروفیسر ہاؤبن لی نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد سے کئی دہائیوں کے دوران ایسے سال بھی گزرے ہیں، جب شمال اور جنوب کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے بھی نظر آئے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ آج ایسی صورت حال نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات میں بہتری بلاشبہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ''چونکہ جنوبی کوریا، امریکہ، چین، روس اور جاپان ہر ایک اپنے اپنے مفادات کے حوالے سے شمالی کوریا کے مسئلے پر بات کرتے ہیں، اس لیے جنوبی کوریا کے پاس یکطرفہ فیصلہ کرنے کے دستیاب اختیارات بہت محدود ہیں۔''

تاہم ا ن کا کہنا ہے کہ ''اب تک کی سب سے موثر پالیسی 'سن شائن پالیسی' رہی ہے جو صدر کم ڈائی جنگ نے سن 1990 کی دہائی کے اواخر میں اپنائی تھی۔

یہ پالیسی شمال کی طرف سے مسلح اشتعال انگیزیوں کو برداشت نہ کرنے پر مبنی تھی، بلکہ اس میں سیول کی طرف سے یہ عہد بھی شامل تھا کہ وہ شمال کو جذب کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اس سے تعاون حاصل کرے۔

پروفیسر نے کہا، ''کچھ قدامت پسند اس پر 'ہینڈ آؤٹ' ڈپلومیسی کے حوالے سے تنقید کر سکتے ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہی وہ واحد پالیسی ہے جو بات چیت کو برقرار رکھنے اور شمالی کوریا کو اپنے دروازے کھولنے اور اسے بین الاقوامی برادری میں شامل کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔''

'صورت اچھی نہیں دکھ رہی'

 کم ڈائی جنگ نے سن 2003 میں عہدہ چھوڑ دیا اور دونوں کوریاؤں کے درمیان تعلقات میں نشیب و فراز آتا رہا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ  مون جا-اِن کے دور اقتدار میں تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، جو سن 2017 اور 2022 کے درمیان صدر تھے۔ لیکن گزشتہ برس یون سیوک-یول کے منتخب ہونے کے بعد سے یہ ایک بار پھر حالات تبدیل ہونے لگے ہیں۔

لی نے کہا کہ ''جب کہ مون انتظامیہ نے اقتدار میں آنے کے بعد دو سپر پاورز، امریکہ اور چین کے درمیان غیر جانبدارانہ سفارت کاری کو برقرار رکھا تھا، یون انتظامیہ نے امریکہ نواز اور چین مخالف موقف کا انتخاب کیا ہے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی کوریا کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کے نتیجے میں بگاڑ دیکھا جا سکتا ہے، انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل قریب میں اس میں پیش رفت کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔

سابق انٹیلیجنس افسر راہ جونگ یل بھی کشیدگی کو کم کرنے کے بارے میں مایوسی کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''جنوبی کوریا کی سیاست مستحکم نہیں ہے اور شمالی کوریا نے ایک بڑی فوجی طاقت حاصل کر لی ہے، جس میں جوہری ہتھیار بھی شامل ہیں۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔''

ص ز/ ج ا (جولیان رائل)

کوریائی خواتین شادی کے بغیر ہی خوش