1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کی طرف سے مالی میں فوجی مداخلت کی منظوری

Imtiaz Ahmad21 دسمبر 2012

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر مالی میں فوجی مداخلت کی منظوری دے دی ہے۔ اس فوجی آپریشن کی قیادت افریقی ممالک کریں گے تاہم انہیں مغربی ممالک کی معاونت حاصل رہے گی۔

https://p.dw.com/p/177Go
تصویر: Habibou Kouyate/AFP/GettyImages

جمعرات کو نیویارک میں منظور کی گئی اس قرارداد کے مطابق شمالی علاقوں میں کسی بھی فوجی آپریشن سے پہلے مالی میں سیاسی مفاہمت، انتخابات کا انعقاد اور ملکی سکیورٹی فورسز کو تربیت فراہم کی جائے گی۔ مغربی افریقی ممالک مالی کے وسیع صحرائی شمالی علاقوں میں تین ہزار سے زائد فوجی بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کا مقصد ان علاقوں کو علیحدگی پسندوں اور اسلامی عسکریت پسندوں سے آزاد کروانا بتایا گیا ہے، جو وہاں ’شرعی نظام‘ نافذ کر چکے ہیں۔

Mali Norden Kämpfer
مالی کے اہم علاقے گاؤ اور ٹِمبکٹو باغیوں کے زیر قبضہ ہیںتصویر: AP

مالی میں رواں برس مارچ میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں طاقت کا انخلاء پیدا ہو گیا تھا۔ مالی کے شمالی علاقے ’ازواد‘ کی آزادی کے لیے سرگرم باغی گروپ ’نیشنل موومنٹ فار دا لبریشن آف ازواد‘ (MNLA) اور مبینہ طور پر القاعدہ سے منسلک مغربی افریقی جہادی گروپ ’موومنٹ فار یونٹی اینڈ جہاد ان ویسٹ افریقہ‘ (MUJWA) نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ مالی کے اہم علاقے گاؤ اور ٹِمبکٹو انہی باغیوں کے زیر قبضہ ہیں۔ شمالی علاقے ازواد کے طوارق باغی بھی نیشنل موومنٹ فار دا لبریشن (MNLA) کا حصہ ہیں۔ اس اتحاد نے رواں برس مالی کی فوج کو شکست دیتے ہوئے خود ساختہ طور پر ’ازواد‘ کی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔

تجزیہ کاروں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ MNLA اور MUJWA کے زیر قبضہ علاقہ امریکی ریاست ٹیکساس کے رقبے کے برابر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان علیحدگی پسندوں اور عسکری گروپوں کے خلاف فوجی آپریشن کرنا مشکل ہو گا۔

ایک سینئیر فرانسیسی عہدیدار کا نیوز ایجنسی اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ بھی امکان ہے کہ وہ (MNLA اور MUJWA) براہ راست تصادم سے بچنے کی کوشش کریں۔ اس صورت میں حملہ آور فورسز کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ شمالی علاقوں پر قابض گروپ شہروں سے نکل کر الجزائر کے سرحدی پہاڑوں میں پناہ لیتے ہوئے گوریلا جنگ کا آغاز کر سکتے ہیں۔ پھر یہ کھیل مختلف ہو سکتا ہے‘‘۔

گزشتہ روز منظور کی گئی قرارداد کا مسودہ دو طرفہ مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا علاقائی طاقتوں پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سب سے پہلے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس کے علاوہ مغربی افریقہ کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب اور سابق اطالوی وزیراعظم Romano Prodi کا کہنا تھا کہ ستمبر 2013ء تک کسی آپریشن کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس قررارداد کے متن میں باقاعدہ طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ اس مجوزہ فوجی مداخلت کا آغاز کب کیا جائے گا۔

فرانس کی طرف سے تیار کردہ اس قرارداد کے مسودے کو امریکا، برطانیہ، مراکش اور ٹوگو کی حمایت حاصل تھی۔ جرمنی نے اس قرار داد کی منظوری کو ’اہم پیش رفت‘ قرار دیا ہے۔

ia / at (AFP,Reuters,dpa)