1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیمن

یمنی بحری حدود میں تارکین وطن کی کشتی غرقاب، درجنوں ہلاکتیں

11 جون 2024

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت نے بتایا ہے یمن کے ساحلی علاقے میں تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوب گئی، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ پچاس افراد ہلاک ہو گئے۔ اس کشتی پر دو سو ساٹھ سے زائد تارکین وطن سوار تھے۔

https://p.dw.com/p/4gugs
Symbolbild Djibouti Verdeckte Leichen von Opfern
اپریل میں جبوتی کے ساحل کے قریب بھی دو کشتیاں ڈوب گئی تھیں اور ان پر سوار درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: International Organization for Migration/AP/picture alliance

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) نے اپنے ایکس ہینڈل پر لکھا کہ یمن کی ساحلی حدود میں ایک کشتی ڈوب گئی، جس کی وجہ سے درجنوں افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔

اس بیان کے مطابق ایک سو چالیس افراد لاپتہ ہیں جبکہ اکہتر کو بچا لیا گیا۔ یہ واقعہ پیر کے دن رونما ہوا۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے اس کشتی میں سوار افراد کی قومیتوں کے بارے میں کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔

ایکس پر اس بیان کے کچھ گھنٹوں بعد آئی او ایم نے کہا کہ انچاس افراد کی لاشیں مل چکی ہیں۔ خدشہ ہے کہ لاپتہ ہونے والوں میں زیادہ تر افراد ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہوں گے۔

’یہ سمندری راستہ قاتل ہے‘

تنازعات، قدرتی آفات یا خراب معاشی حالات سے فرار کی خاطر ہر سال ہزاروں افراد قرن افریقہ سے بحیرہ احمر کے راستے امیر خلیجی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے مہاجرین سمندری لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں۔

اپریل میں جبوتی کے ساحل کے قریب بھی دو کشتیاں ڈوب گئی تھیں اور ان پر سوار درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ آئی او ایم کے مطابق سن دو ہزار چودہ سے سن دو ہزار تیئیس تک اس مائیگریشن روٹ پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم بھی ساڑھے تیرہ سو کے لگ بھگ بنتی ہے۔

تیونس: یورپ کی طرف ہجرت کا نیا ہاٹ اسپاٹ

اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کے مطابق سن 2023 میں اس سمندری راستے میں کم از کم سات سو افراد مارے گئے جبکہ ایک سو پانچ لاپتہ ہوئے۔  آئی او ایم نے بتایا ہے کہ اس تازہ حادثے کے متاثرین کو فوری طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

گلف کے امیر ممالک پہنچنے کی خواہش

قرن افریقہ کے ممالک سے مہاجرت اختیار کرتے ہوئے خطرناک سمندری راستے سے جو تارکین وطن یمن پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، انہیں اکثر اپنی سلامتی کے مزید خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جزیرہ نما عرب کا غریب ترین ملک یمن ایک دہائی سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔

بہت سے لوگ سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ممالک تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہاں مزدوروں یا گھریلو ملازمین کے طور پر کام کر سکیں۔

سعودی عرب: ’ایمیزون کے گوداموں میں کارکنوں کی خوفناک صورتحال‘

سعودی سرحدی محافظوں نے سینکڑوں تارکین وطن کو ہلاک کیا، رپورٹ

اگست میں ہیومن رائٹس واچ نے سعودی سرحدی محافظوں پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے مارچ 2022 اور جون 2023 کے درمیان یمن سے اس خلیجی ریاست میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ایتھوپیا کے 'سینکڑوں‘ شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

ریاض حکومت نے البتہ انسانی حقوق کی اس تنظیم کے ان الزامات کو 'بے بنیاد‘  قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

سعودی سرحدی محافظوں سے بچنا آسان نہیں

مکسڈ مائیگریشن سینٹر (ایم ایم سی) نے گزشتہ ہفتے ہی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ یمن کے ہسپتالوں میں اب بھی ایسے افراد کا علاج جاری ہے، جو سرحد پر ہونے والے حملوں میں زخمی ہو جاتے ہیں اور جن میں سے کم از کم چھ افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

ایم ایم سی نے مزید کہا کہ یمن اور سعودی عرب کی سرحدوں پر حالات کے بارے میں یقینی سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ایسی اطلاعات ہیں کہ سعودی سرحدی گارڈز ایتھوپیائی تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کی خاطر انہیں ہلاک کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔

یمنی پانیوں کے قریب کشتی ڈوبنے سے چھیالیس مہاجرین ہلاک

’مہاجرین کے حقوق کی پامالیوں کی ذمہ دار یورپی یونین بھی‘

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت آئی او ایم نے کہا ہے کہ بہت سے خطرات کے باوجود یمن پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2021 کے مقابلے میں 2023 میں یمن جانے والے تارکین وطن کی تعداد تین گنا بڑھی ہے۔

آئی او ایم کے اعداد و شمار کے مطابق قرن افریقہ سے یمن جانے والے ان تارکین وطن کی تعداد ستائیس ہزار سے بڑھ کر نوّے ہزار سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔

ع ب/ م م (اے ایف پی، روئٹرز)

کشتی حادثہ، رشتہ داروں کو دردناک خبر کا انتظار