1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہزاروں ہندو قربانی کے لیے ابلتے ہوئے آتش فشاں کے دہانے پر

16 جون 2022

انڈونیشیا میں صدیوں پرانی روایت کے مطابق ہزاروں قبائلی ہندو قربانی اور چڑھاووں کے لیے ایک آتش فشاں پہاڑ کے دہانے پر پہنچ گئے۔ وہ نذرانے کے طور پر وہاں سے زندہ بکریاں اور مرغیاں بھی ابلتے آتش فشاں کے اندر پھینک دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4CoxI
تصویر: Getty Images/AFP/J. Kriswanto

انڈونیشیا میں مشرقی جاوا کے علاقے میں ماؤنٹ برومو نامی پہاڑ پر قدیم قبائل کی ہندو آبادی کی طرف سے کیا جانے والا یہ عمل دراصل ایک صدیوں پرانی روایت اور مذہبی تہوار ہے، جو آج بھی ٹینگر قبائلی باشندے ہر سال بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اس قدیم مذہبی تہوار کا نام یادنیا کاسادا ہے اور اسے مناتے ہوئے ہزارہا ہندو پیدل چلتے ہوئے برومو نامی آتش فشاں پہاڑ کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔

سمندر کی تہہ میں آتش فشاں کیسے بنتے ہیں؟

وہاں سے وہ اپنے ساتھ لائے جانے والے قربانی کے بہت سے جانور اور نذرانے کے طور پر پیش کرنے کے لیے طرح طرح کی اشیاء بھی اس آتش فشاں کے اندر پھینک دیتے ہیں۔ ان جانوروں میں عموماﹰ مرغیوں سے لے کر بکریاں اور بھیڑیں تک بھی شامل ہوتی ہیں اور انواع و اقسام کی فصلوں کی پیداوار اور زرعی اجناس کے علاوہ بڑے متنوع غیر نامیاتی نذرانے بھی۔

مقصد دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنا

اس قربانی اور ایسے چڑھاووں کا مقصد ان ہندو دیویوں اور دیوتاؤں کو خوش کرنا ہوتا ہے، جو ٹینگر نسل کی قدیم مقامی آبادیوں کے اعتقاد کے مطابق اس قربانی کے بدلے ایسے زائرین اور ان کے قبائل کو صحت، خوشحالی اور اچھی فصلیں دیتے ہیں۔ آتش فشاں کے دہانے سے پھینکے جانے والے اور نیچے بہت گہرائی میں ابلتے ہوئے لاوے پر گرنے والے ان نذرانوں میں سبزیاں، پھل اور پھول بھی شامل ہوتے ہیں۔

Indonesien Kasada Zeremonie am Vulkan Bromo
تصویر: Getty Images/AFP/J. Kriswanto

برف کے دور میں زندگی کے محافظ، آتش فشاں

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس آتش فشاں کے دہانے کے بیرونی حصے سے ذرا نیچے لیکن زائرین کی نظروں سے چھپ کر بہت سے مقامی باشندے مختلف جال لے کر اس لیے چھپے ہوتے ہیں کہ اوپر سے پھینکے جانے کے بعد لیکن اندر گرنے سے پہلے وہ ایسے نذرانوں اور قربانی کے جانوروں کو زندہ پکڑ لیں اور پھر رات کے اندھیرے میں کسی کو بھی خبر ہوئے بغیر اس 'مال اور آمدنی‘ کے ساتھ اپنے گھروں کی راہ لیں۔

ہر سال منایا جانے والا مذہبی تہوار

اس مذہبی تہوار میں حصہ لینے کے لیے پہاڑی دیہات کے رہائشی ٹینگر ہندو زائرین دیوی دیوتاؤں کے لیے اپنے نذرانے سروں پر اٹھائے میلوں خطرناک پہاڑی راستوں پر وہ سفر کرتے ہیں، جو ان کے عقیدے کے مطابق ہمیشہ ثمر آور ثابت ہوتا ہے۔

ٹونگا: زیر سمندر آتش فشاں پھٹنے سے سونامی، ساحلی خطے زیر آب

جمعرات سولہ جون کے روز اس سالانہ تہوار کے لیے ماؤنٹ برومو پر آتش فشاں کے دہانے تک کی پیدل مسافت طے کرنے والے ایک قبائلی ہندو باشندے واوان نے بتایا، ''ہم ہر سال یہاں آتے ہیں۔ چاہے کوئی وبا ہو یا نہ ہو۔ میں کورونا کی وبا کے باوجود اس سال بھی اس تہوار کے لیے یہاں آیا ہوں۔ میں اپنے ساتھ اپنی فصلوں کا کچھ حصہ نذرانے کے طور پر لاتا ہوں، جو ہم پہاڑ کے دہانے پر، جہاں سے ڈھلوان شروع ہوتی ہے، کھڑے ہو کر اندر پھینک دیتے ہیں۔‘‘

Indonesien Mount Bromo Vulkan Landschaft Java
ماؤنٹ برومو، آتش فشاں بھی اور قدرتی حسن کا شاہکار بھی، جہاں طلوع آفتاب کا منظر افسانوی حد تک قابل دید ہوتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/G.A.Lotulung

یادنیا کاسادا کی صدیوں پرانی تاریخ

اس سال یادنیا کاسادا نامی یہ تہوار کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دور میں منایا جانے والا پہلا تہوار یقینیاﹰ نہیں تھا۔ مشرقی جاوا کے اس علاقے میں ٹینگر ہندو مذہبی برداری کی مرکزی تنظیم کے سربراہ بامبانگ سپراپتو کے مطابق، ''یہ تہوار ہمارے لیے انتہائی اہم ایک ایسی مذہبی روایت ہے، جس پر ہر حال میں عمل کیا جانا چاہیے اور ہمیں کوئی بھی رکاوٹ روک نہیں سکتی۔ یہ تہوار نہ تو دنیا میں کسی اور جگہ منایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا آن لائن یا ورچوئل انعقاد ممکن ہے۔‘‘

آتش فشاؤں کا پھٹنا بڑے دریاؤں کے لیے نقصان دہ

ماؤنٹ برومو کی چوٹی پر واقع آتش فشاں کو اس تہوار میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ روایت کے مطابق یہ تہوار 15 ویں صدی میں اس وقت سے ہر سال منایا جاتا ہے، جب جاوا کے ایک ہندو بادشاہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوتی تھی اور اس نے اپنی ملکہ کے ہمراہ اس پہاڑ کو نذرانہ پیش کیا تھا، جس کے بدلے میں اس شاہی جوڑے کے ہاں 25 بچے پیدا ہوئے تھے۔

ایک دوسری روایت کے مطابق اسی ہندو بادشاہ کے سب سے کم عمر بیٹے نے اس لیے اس آتش فشاں میں چھلانگ لگا کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا کہ اپنے خاندان اور ٹینگر قبائل کی خوشحالی کو یقینی بنا سکے۔ بامبانگ سپراپتو نے کہا، ''بات یہ ہے کہ اگر ہم فطرت کا دھیان رکھتے ہیں، تو پھر فطرت بھی ہمارا خیال رکھتی ہے۔‘‘

م م / ا ا (اے ایف پی)