ہانگ کانگ کا سیاسی بحران بند گلی میں
1 اکتوبر 2014فریقین کے سخت مؤقف کے باوجود مظاہرین کا مورال بلند اور وہ پرجوش دکھائی دے رہے ہیں۔ مظاہرین کے لیڈران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ مظاہروں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے مزید مقامی لوگوں کو ان میں شرکت کی دعوت دیں گے۔ حکومتی ہیڈکوارٹرز کو جانے والے راستے پر ہزاروں مظاہرین دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ مظاہرین ہانگ کانگ کے مالیاتی مراکز تک پھیل چکے ہیں۔ مظاہرین چھتریوں اور برساتیوں سے لیس ہے۔ یہ اشیاء بارش اور سرکاری پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور مرچوں کے چھڑکاؤ میں دفاع بھی فراہم کرتی ہیں۔ طلبا کے بعض لیڈران نے چیف ایگزیکٹو لییُونگ چُن یِنگ سے کہا ہے کہ وہ جمعرات تک مستعفی ہو جائیں وگرنہ وہ مظاہروں کے دوسرے آپشنز پر عمل پیرا ہو جائیں گے۔ اِن میں دوسری اہم عمارترں پر قبضہ کرنا بھی شامل ہے۔ دوسری جانب چین کی کمیونسٹ پارٹی بھی مظاہرین کے ساتھ لچک کا رویہ دکھانے کا ارادہ نہیں رکھتی کیونکہ اِس باعث مرکزی چینی علاقے میں بھی حکومتی منحرفین اور کچھ علاقوں کے باغی بھی ایسی رعایت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
چین کی حکومت نے ہانگ کانگ میں جاری طلبا کے مظاہروں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں غیرقانونی قرار دیا ہے۔ یہ البتہ واضح ہے کہ بیجنگ حکومتی ہانگ کانگ کے انتظامی معاملات میں ابھی تک ڈھکے چھپے انداز میں شامل نہیں ہے اور صورت حال کا جائزہ لے رہی ہے کہ نیم خود مختار علاقے کی انتظامیہ کس انداز سے بحرانی حالات سے نمٹتی ہے۔ منگل کی نیم شب میں ہانگ کانگ کے انتظامی افسر چیف ایگزیکٹو لییُونگ چُن پِنگ نے مظاہرین سے ملاقات کر کے اُن کے مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اِس باعث تقریباً ایک ہفتے سے جاری بحران کے حل کی امید ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ اب مظاہرین ایک مرتبہ پھر چیف ایگزیکٹو سے ملاقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہانگ کانگ میں جاری پرامن مظاہروں کی خبریں اگر ایک طرف ساری دنیا میں اہمیت کی حامل بن چکی ہیں تو بیجنگ حکومت چین میں ان خبروں کو توڑ مروڑ کے پیش کر رہا ہے۔ ان کے مطابق ہانگ کانگ میں مظاہرین پرتشدد روپ دھارے ہوئے ہیں اور پولیس انتہائی پرامن انداز میں صورت حال کو قابو کرنے کی کوشش میں ہے۔ بیجنگ میں بی بی سی اور سی این این پر جب ہانگ کانگ کی خبریں نشر کی جاتی ہیں تو حکومت مشینری اسکرین کو بلاک کر دیتی ہے۔ بیجنگ میں عوام سطح تک ہانگ کانگ کی صورت حال بارے انتہائی کم معلومات پہنچ رہیں ہیں۔ چین میں پہلے ہی فیس بُک، ٹویٹر اور یُو ٹیوب پر پابندی عائد ہے۔
ہانگ کانگ کی صورت حال پر لندن میں تعینات چینی سفیر کو برطانیہ کے نائب وزیراعظم نِک کلیگ نے منگل کے روز بلا کر اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ اِس مناسبت سے برطانوی نائب وزیراعظم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ووٹ دینا ہر ایک کا حق ہے اور اپنے پسند کے امیدوار کو ووٹ دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے جبکہ حکومتی منتخب شدہ امیدوار کو ووٹ ڈالنا ووٹنگ نہیں ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ چین کے مفاد میں نہیں کہ بے شمار لوگ محرومی کا شکار ہوں جیسا کہ ہانگ کانگ میں دیکھا جا رہا ہے۔ کلیگ نے اپنے بیان میں واشگاف انداز میں کہا کہ وہ واضح طور پر ہانگ کانگ کے مظاہرین کے ساتھ ہیں۔