1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ میں مظاہرے طول پکڑتے ہوئے

عاطف بلوچ29 ستمبر 2014

ہانگ کانگ میں جمہوریت پسندوں کے مظاہرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ اتوار کے دن پولیس نے ان مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل بھی برسائے تاہم اس سے ان کے جمہوری اصلاحات کے مطالبات پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

https://p.dw.com/p/1DMQX
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہانگ کانگ سے آمدہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مظاہرین نے آج پیر کے روز بہت سی شاہراہوں کو رکاوٹوں کے ساتھ بند کر دیا، جس کے نتیجے میں معمول کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ متعدد اسکول اور دفاتر بھی بند ہو گئے ہیں تاہم اس خطے کے اسٹاک ایکسچیج کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ بازار حصص معمول کے مطابق کام کرتا رہے گا۔ ان تازہ مظاہروں کی وجہ سے البتہ اسٹاک ایکسچینج میں مندی دیکھی گئی ہے۔

Demonstrationen in Hongkong
بیجنگ کی طرف سے سیاسی اصلاحات کو محدود بنانے کی کوشش پر ہانگ کانگ میں احتجاجی دھرنے کا سلسلہ ایک ہفتہ قبل شروع ہوا تھاتصویر: Reuters

شہر کے انتہائی گنجان آباد علاقے مونگ کانگ میں ٹریفک بری طرح متاثر ہوئی ہے اور وہاں تمام کاروباری مراکز بھی بند ہیں۔ ٹریفک ڈپارٹمنٹ نے بتایا ہے کہ ان مظاہروں کی وجہ سے دو سو بسوں کے روٹ متاثر ہوئے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ مسافروں کو پریشانی سے بچانے کے لیے متبادل روٹ استعمال کیے جائیں۔ شہر کے ٹرین سسٹم میں بھی خلل کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

بیجنگ کی طرف سے سیاسی اصلاحات کو محدود بنانے کی کوشش پر ہانگ کانگ میں احتجاجی دھرنے کا سلسلہ ایک ہفتہ قبل شروع ہوا تھا لیکن گزشتہ روز مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر عوامی غصہ نمایاں ہے اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وہ اب یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ ہانگ کانگ کے چین نواز چیف ایگزیکٹو لیونگ چُن یِنگ مستعفی ہو جائیں۔ پولیس نے سرکاری عمارتوں کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور لاٹھی چارج بھی کیا تھا۔

چین کے کنٹرول میں خصوصی حیثیت کے حامل نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو لیونگ چُن یِنگ نے اس صورتحال میں ایسے خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ حالات معمول پر لانے کے لیے چینی فوج مداخلت کر سکتی ہے۔ آج پیر کے روز انہوں ںے کہا، ’’میں امید کرتا ہوں کہ عوام پرسکون رہیں گے۔ افواہوں سے گمراہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پولیس صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرے گی۔‘‘ انہوں نے مظاہرین سے درخواست کی کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور قانون کا احترام کرتے ہوئے مشکلات کا سبب نہ بنیں۔ لیونگ چُن یِنگ نے واضح کیا کہ پولیس اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے تمام تر اختیارات استعمال کرے گی۔

ہانگ کانگ میں مظاہروں کے اس سلسلے میں اب ہائی اسکول کے طالب علم بھی شریک ہو چکے ہیں۔ ہانگ کانگ کے آئندہ رہنما کے لیے پہلی مرتبہ الیکشن 2017ء میں منعقد کیے جائیں گے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ سیاسی اصلاحات کے لیے مجوزہ رہنما ضابطوں کے تحت ہر کسی کو یہ الیکشن لڑنے کی اجازت ہونا چاہیے۔

Hong Kong Leung Chun Ying
ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو لیونگ چُن یِنگ نےایسے خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ چینی فوج مداخلت کر سکتی ہےتصویر: Alex Ogle/AFP/Getty Images

تاہم چینی حکومت نے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مظاہرین کے مطابق یوں بیجنگ چاہتا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے نئے رہنما کے طور پر بالواسطہ طور پر اپنی پسند کی شخصیت کا انتخاب کرے۔ موجودہ الیکشن قوانین کے مطابق ان انتخابات میں حصہ لینے والوں کی حتمی فہرست ایک حکومتی کمیٹی تیار کرے گی۔

برطانیہ کی سابق نو آبادی ہانگ کانگ کے ایک انیس سالہ طالب علم نے روئٹرز کو بتایا، ’’یہ ایک طویل جنگ ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ ناکہ بندی کل بھی جاری رہے گی تاکہ اس مظاہرے کو با معنی بنایا جا سکے۔‘‘ اس طالب علم نے خبردار کیا کہ اگر حکومت مظاہرین کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک روا رکھے گی تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس بات پر اس کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔