1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیری رہنما یاسین ملک تہاڑ جیل میں غیرمعینہ بھوک ہڑتال پر

جاوید اختر، نئی دہلی
23 جولائی 2022

دہلی کے تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک نے غیرمعینہ بھوک ہڑتال شروع کردی ہے۔ ملک کا الزام ہے کہ ان کے کیس کی مناسب تفتیش نہیں کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4EXwJ
Indien I Kaschmir Separatistenführer
تصویر: Stringer/AA/picture alliance

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ علیحدگی پسند کشمیری رہنما یاسین ملک نے جمعے کے روز سے کھانے سے انکار کر رکھا ہے اورغیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔

یاسین ملک کو بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کی ایک خصوصی عدالت نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون اور دیگر بھارتی تعزیرات کے تحت رواں برس مئی میں دو عمر قید اور مختلف دیگر سزائیں سنائی تھی۔ یہ تمام سزائیں ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ خصوصی عدالت نے ان پر دس لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ یاسین ملک نے اپنے اوپرعائد الزامات کے خلاف اعلیٰ عدالت سے رجو ع نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

این آئی اے کی خصوصی عدالت نے یاسین ملک کے علاوہ جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید اور حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے خلاف بھی عمر قید کے فیصلے سنائے تھے۔

تہاڑ جیل کے حکام نے یاسین ملک کے غیر معینہ بھوک ہڑتال پر چلے جانے کی تصدیق کی ہے۔ جیل کے سینئر حکام نے میڈیا کو بتایا،''جیل حکام نے ان سے ملاقات کی اور ان کے مطالبات کے بارے میں دریافت کیا۔ ملک نے انہیں بتایا کہ ان کے کیس کی مناسب اندازمیں تفتیش نہیں ہو رہی ہے۔ جیل حکام نے انہیں اپنا بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے منانے کی کوشش کی تاہم انہوں نے انکار کردیا۔‘‘

یاسین ملک پر کیا الزامات ہیں؟

این آئی اے نے جے کے ایل ایف کے سربراہ یاسین ملک کو ٹیرر فنڈنگ کے کیس میں سن 2019 میں گرفتار کیا تھا۔ این آئی اے نے اپنے ایف آئی آر میں کہا تھا کہ کشمیری علیحدگی پسند رہنما کو وادی میں پتھر بازی، اسکولوں کو نذر آتش اور ہڑتال اور مظاہروں کا انعقاد کروا کر انتشار پھیلانے کے لیے پاکستان سے فنڈ مل رہے تھے۔

این آئی اے نے اس سلسلے میں ملک کے علاوہ دختران ملت کی رہنما آسیہ اندرابی اور جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر شاہ سمیت ایک درجن سے زائد علیحدگی پسند رہنماوں کو بھی گرفتار کیا تھا۔

جے کے ایل ایف پر سن 2019 میں ہی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ملک کو اس سال 19مئی کو قصوروار قرار دیا گیا اور 25 مئی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

Indien Tihar Gefängnis in New Delhi
تہاڑ جیلتصویر: STR/AFP/Getty Images

یاسین ملک اپنا کیس خود لڑ رہے ہیں

جے کے ایل ایف کے ترجمان محمد ڈار رفیق کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں شائع ایک بیان کے مطابق فرنٹ کی سپریم کونسل نے ملک کو عدالتوں میں حاضر نہیں کیے جانے کو ''غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر جمہوری‘‘ قرار دیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک عدالت کی پچھلی سماعت سے ایک روز قبل 12جولائی سے ہی بھوک ہڑتال پر جانا چاہتے تھے لیکن جیل حکام کی درخواست پر انہوں نے اسے دس دنوں کے لیے موخر کردیا گیا۔ جیل حکام نے مبینہ طورپر کہا تھا کہ انہیں اس معاملے کو متعلقہ اعلیٰ حکام تک لے جانے کے تھوڑا وقت چاہیے۔

یاسین ملک اپنے خلاف عائد کیسز کی وکالت خود کر رہے ہیں۔ وہ روبیہ سعید اغوا کیس میں جموں کی ایک عدالت میں 23 اگست کو ہونے والی اگلی سماعت پر بہ نفس نفیس خود عدالت میں حاضر ہو کر اپنا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ سابق بھارتی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بہن روبیہ سعید کا 1989میں اغوا کرلیا گیا تھا۔ روبیہ سعید نے یاسین ملک کو اپنے اغواکار کے طور پر شناخت کی ہے۔ عدالت نے روبیہ سعید کو 23 اگست کو اگلی سماعت کے دوران عدالت میں موجود رہنے کے لیے کہا ہے۔ اب  یاسین ملک اس سلسلے میں روبیہ سعید سے خود جرح کرنا چاہتے ہیں۔

Indien I Shutdown in Kashmir
جے کے ایل ایف پر سن 2019 میں ہی پابندی عائد کردی گئی تھیتصویر: Saqib Majeed/ZUMAPRESS/picture alliance

یاسین ملک کا خط

یاسین ملک نے بھوک ہڑتال پر جانے سے قبل ایک خط تحریر کیا ہے۔  ان کی پاکستانی اہلیہ مشال حسین ملک کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں اس خط کے کچھ اقتباسات شائع ہوئے ہیں۔ اس خط میں انہوں نے سن 1986 سے، جب وہ بارہویں درجے کے طالب علم تھے، علیحدگی پسند سیاست میں اپنے سفر کا ذکر کیا ہے۔

ملک نے خط میں لکھا ہے کہ اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ راجیش پائلٹ، آئی ایس افسر وجاہت حبیب اللہ، صحافی کلدیپ نیئر، جسٹس راجندر سچر اور انٹلی جنس بیورو کے سینیئر افسران کے ساتھ گفتگو کے بعد جے کے ایل ایف نے اپنی تحریک کو ایک جمہوری غیر تشدد تحریک میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔

ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ ''نئی دہلی میں امریکی اور برطانوی سفارت کاروں نے بھی انہیں اسی طرح کی تجویز پیش کی۔ میں نے اسے قبول کر لیا اور سن 1994میں جنگ بندی کا اعلان کر دیا، جس وقت میں نے جنگ بندی کا اعلان کیا اس وقت تقریباً دو ہزار سرگرم عسکریت پسند تھے۔‘‘  ملک کا کہنا ہے کہ 1994کے بعد کسی بھی بھارتی وزیر اعظم نے ان کے یا جے کے ایل ایف کے ممبران کے خلاف کوئی کیس نہیں کیا۔ ''ان سب نے جنگ بندی معاہدے کے جذبے پر عمل کیا۔‘‘

یاسین ملک نے بھارت کی جدوجہد آزادی اور کشمیری میں علیحدگی پسندی تحریک کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے اپنے خط میں لکھا ہے، ''مہاتما گاندھی کے عدم تشدد تحریک کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ انہیں برطانوی سامراج نے ایک حقیقی جمہوری اور آزاد ماحول فراہم کیا تھا جس میں اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کو تسلیم کیا گیا تھا۔‘‘

علیحدگی پسند کشمیری رہنما نے ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کے رہنماؤں کے ساتھ اپنی متعدد ملاقاتوں اور تفصیلی بات چیت کا بھی ذکر کیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید