کشمیر میں خونریز جھڑپ: چار بھارتی فوجی، تین عسکریت پسند ہلاک
8 نومبر 2020بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ خونریز جھڑپ آج اتوار آٹھ نومبر کو علی الصبح ضلع کپواڑہ میں ایک ایسی جگہ پر ہوئی، جو پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام منقسم کشمیر کے دونوں حصوں کو علیحدہ کرنے والی کنٹرول لائن سے صرف ساڑھے تین کلو میٹر دور ہے۔
گلگت بلتستان پر پاکستانی اقدام سے بھارت شدید برہم
بھارتی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے بتایا کہ یہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے دستے علاقے میں معمول کے گشت پر تھے اور انہیں اس علاقے میں چند افراد کی مشکوک نقل و حرکت کا شبہ ہوا۔
مزید فوجی مدد کی درخواست
ترجمان کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب بھارتی دستوں اور عسکریت پسندوں کے مابین اس جھڑپ کے دوران پہلے ایک عسکریت پسند اور پھر ایک بھارتی فوجی بھی مارا گیا۔ اس پر موقع پر موجود دستوں نے اپنے لیے مزید عسکری مدد طلب کر لی، تو اطراف کے مابین فائرنگ کا تبادلہ طول پکڑ گیا اور مزید خونریز ہو گیا۔
حزب المجاہدین کا اعلیٰ کمانڈر سیف اللہ میر سری نگر میں مارا گیا
کرنل راجیش کالیا نے صحافیوں کو بتایا کہ اضافی دستوں کے موقع پر پہنچنے کے بعد دونوں طرف سے شدید فائرنگ ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں مزید تین فوجی اور دو دیگر عسکریت پسند مارے گئے۔ اس طرح اس جھڑپ میں کل سات افراد ہلاک ہوئے جبکہ دو بھارتی فوجی زخمی بھی ہوئے، جنہیں وہاں سے نکال کر علاج کے لیے ایک فوجی ہسپتال پہنچا دیا گیا۔
کشمیر سے متعلق سعودی عرب کے نقشے پر بھارت کا شدید اعتراض
'آپریشن ابھی جاری ہے‘
بھارتی حکام کے مطابق یہ واضح نہیں کہ اس جھڑپ میں حصہ لینے والے عسکریت پسندوں کی تعداد کتنی تھی، تاہم کنٹرول لائن کے قریب اس علاقے میں 'آپریشن ابھی تک جاری ہے‘۔
بھارت کی طرف سے پاکستان پر اکثر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ کنٹرول لائن کے پار سے کشمیری عسکریت پسندوں کی اس لیے مدد کرتا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح حملے کر سکیں۔ پاکستان کی طرف سے ان بھارتی الزامات کی ہمیشہ پرزور تردید کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کشمیری عسکریت پسند وہ حریت پسند ہیں، جن کی جدوجہد کو اسلام آباد اخلاقی طور پر بجا سمجھتا ہے۔
م م / ا ا (ڈی پی اے، روئٹرز)