1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: نئے اراضی قوانین کے خلاف کشمیری سراپا احتجاج

جاوید اختر، نئی دہلی
28 اکتوبر 2020

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے اراضی قوانین میں ترمیم کے بعد اب کوئی بھی بھارتی شہری کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے۔ کشمیریوں کے مطابق مودی حکومت کا یہ حکم نامہ'دھوکا دہی، غیر آئینی اور ناقابل قبول‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/3kWwR
Global Ideas | Kaschmir Region
تصویر: Furkan Khan

بھارتی وزارت داخلہ نے منگل کے روز ایک اہم پیش رفت میں جموں و کشمیر کے اراضی قوانین میں بڑے پیمانے پر ترمیم کرتے ہوئے اب کسی بھی بھارتی شہری کو مرکز کے زیر انتظام اس علاقے میں اراضی خریدنے کا حق دے دیا ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

کشمیری شناخت کا خاتمہ

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کی اراضی کو اس طرح سے فروخت کے لیے رکھنا اُن آئینی یقین دہانیوں اور معاہدوں سے انحراف ہے، جو جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے درمیان رشتوں کی بنیاد ہیں۔ یہ اقدامات اُس بڑے منصوبے کا حصہ ہیں، جن کا مقصد کشمیر کی شناخت، انفرادیت اور اجتماعیت کو ختم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں اور ان کو حاصل آئینی ضمانتوں سے انحراف کر کے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی جموں و کشمیر سے زیادہ بھارت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ”یہ سارے اقدامات تنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت کیے جا رہے ہیں، جو جمہوری اور آئینی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمل میں لایا گیا تھا اور ایسے اقدامات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ نئی دہلی کو جموں وکشمیر کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ان کو صرف یہاں کی زمین سے مطلب ہے۔"

’مذموم کوشش‘

پی ڈی پی کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی وزارت داخلہ کے نوٹیفیکیشن کو ایک مذموم کوشش قرار دیا۔ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں کہا،”زمینوں سے متعلق جاری نوٹیفکیشن بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے اختیارات ختم کرنے، جمہوری حقوق سے محروم رکھنے اور وسائل پر قبضہ کرنے کے سلسلے کی ایک اور مذموم کوشش ہے۔ دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور وسائل کی لوٹ مار کے بعد اب زمینوں کی کھلے عام فروخت کے لیے راہ ہموار کر دی گئی ہے۔"

تحفظات

بی جے پی سے بظاہر قربت رکھنے والی 'جموں و کشمیر اپنی پارٹی‘ کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے بھی مودی حکومت کے فیصلے پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے تحفظات بھارت کی اعلی قیادت کے سامنے پیش کریں گے۔ 

الطاف بخاری نے ایک بیان میں کہا،”لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے آئینی حقوق بہت پہلے چھین لیے گئے تھے اور جو کچھ بچا تھا وہ بھی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی کے ساتھ پانچ اگست 2019 کو چھین لیا گیا۔ لیکن ہماری پارٹی جموں و کشمیر کے شہریو ں کے حقوق کی لڑائی جاری رکھے گی اور ان کے مفادات کے خلاف ہر اقدام کی مزاحمت کرے گی۔ بہتر ہوتا کہ اس نوعیت کے اہم قوانین کو چھوڑ دیا جاتا یا جموں وکشمیر کی منتخب حکومت کے ساتھ مشاورت سے ان پر کوئی فیصلہ لیاجاتا۔"

کشمیر میں کیا کچھ بدل گیا؟

’دن دہاڑے ڈاکہ‘

اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے اتحاد'گپکار عوامی اتحاد‘  کے ترجمان سجاد غنی لون نے جموں کشمیر اراضی قوانین میں ترمیم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جموں کشمیر اور لداخ کے پشتینی باشندوں کو، جو حق دیا گیا تھا، اسے ختم کر کے غیر منقولہ جائیداد حاصل کرنے کا امتیازی حق غیر ریاستیوں کو دیاگیا ہے۔ انہو ں نے حکومت کے فیصلے کو دھوکا اور مکمل طور پر غیرآئینی قرار دیا۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ) کے سینئر رہنما اور سابق ممبر اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے ایک ٹویٹ میں کہا،”یہ جموں وکشمیرکے لوگوں کو مزید بے اختیارکرنے کی کڑی ہے اور یہ سلامتی، ترقی اور قومی یکجہتی کے نام پر دن دہاڑے ڈاکہ ہے۔"

کانگریس پارٹی نے اراضی قوانین میں ترامیم کو بی جے پی حکومت کی یقین دہانیو ں کے خلاف قرار دیا۔ کانگریس کے ریاستی ترجمان رویندر شرما کا کہنا تھا،”لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے باوجود ان کو زمین اور ملازمت کے حق پر تحفظ حاصل ہو گا۔"

بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی کے رہنما اور سابق رکن پارلیمان سیتا رام یچوری کا کہنا تھا،”یہ ڈاکہ زنی ہے۔ جموں وکشمیرکے وسائل  اور وہاں کے خوب صورت دھرتی کی لوٹ ہے۔ تمام جمہوری ڈھانچوں کی تباہی کے بعد کیا اگلا  قدم جبری طور لوگوں کی اراضی کو حاصل کر کے اپنے یار دوستوں کو دینا ہے؟ تاکہ حکمراں جماعت کی جیبیں بھری رہیں؟اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"

کیا ہے نئی ترمیم؟

نئی دہلی حکومت کی طرف سے گزشتہ برس دفعہ 370 کی تنسیخ اور دفعہ35 اے ختم کرنے سے قبل بھارت کی دوسری ریاستوں میں رہائش پذیر شہریوں کو جموں وکشمیر میں اراضی اور غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر پابندی تھی اور صرف ”پشتینی باشندے" ہی ریاست میں اراضی خریدنے کے حق دار تھے۔  تاہم نئی ترامیم سے غیر رہائشی شہریوں کو مرکزی زیر انتظام علاقے میں اراضی خریدنے کا راستہ فراہم ہو گیا ہے۔

نئی ترامیم میں اگرچہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لیے منتقل نہیں کیا جا سکتا، تاہم قانون میں اس بات کی بھی چھوٹ رکھی گئی ہے کہ زرعی اراضی پر تعلیمی ادارے اور طبی سہولیات کے لیے ڈھانچے تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔

 ترامیم کے مطابق زمین کے مالک کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ کسی غیر کاشت کار کو اراضی فروخت کرنے کے علاوہ اس کا تبادلہ بھی کر سکتا ہے یا اس کو یہ اراضی تحفہ میں دے سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ شخص مذکورہ اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں لا سکتا ہے۔

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا تھاکہ”ہم چاہتے ہیں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح جموں و کشمیر میں بھی صنعتیں قائم ہوں تاکہ یہاں ترقی ہو اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملنا یقینی بن جائے۔"

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں