1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی آپریشن سے متعلق ایم کیو ایم کا الزام

رفعت سعید، کراچی3 اکتوبر 2013

کراچی میں قیام امن کے لیے پانچ ستمبر کو شروع کیا گیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ٹارگٹڈ آپریشن اب متحدہ قومی موومنٹ تک بھی پہنچ گیا ہے۔ ایم کیو ایم نے الزام لگایا ہے کہ یہ آپریشن اب سیاسی رنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/19tJU
تصویر: picture-alliance/dpa

کراچی میں اس محدود لیکن طے شدہ مقاصد کے تحت کیے جانے والے آپریشن کے حوالے سے اب یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ اگر ایم کیو ایم پر ایک اور آپریشن مسلط کیا گیا تو نواز شریف حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

موجودہ صورت حال کا آغاز دس ستمبر کو ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سابق رکن اسمبلی ندیم ہاشمی کی گرفتاری سے ہوا، جس کے بعد گورنر سندھ کی دبئی روانگی بھی دیکھی گئی لیکن الطاف حسین کی سالگرہ کے روز ندیم ہاشمی کی رہائی، اور پھر گورنر سندھ کی واپسی کے بعد محسوس یہ ہو رہا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایم کیو ایم کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ پولیس اور رینجرز ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے اور اگر ایسا ہوا بھی تو کم از کم ایم کیو کو نام لے کر کسی مقدمے میں ملوث نہیں کیا جائے گا۔

Altaf Hussain
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین برسوں سے لندن میں مقیم ہیںتصویر: Usama1993/cc/by/sa

لیکن یکم اکتوبر کو پہلے لانڈھی میں ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس پر رینجرز کے چھاپے نے صورت حال کو یکسر تبدیل کردیا۔ پھر ایم کیو ایم نے روایتی رد عمل کے طور پر پریس کانفرنس میں رینجرز کے چھاپے کے دوران ’لوٹ مار اور توہین آمیز وال چاکنگ‘ کے الزامات عائد کیے اور حراست میں لیے گئے افراد کی گرفتاری کے ’فوری طور پر ظاہر کیے جانے‘ کا مطالبہ کر دیا۔ حیرت انگیز طور پر رینجرز نے یہ مطالبہ فوراﹰ مان بھی لیا۔

رینجرز نے دعویٰ کیا کہ سیکٹر آفس پر چھاپہ ایک گرفتار شدہ ’ٹارگٹ کِلر‘ کی نشاندہی پر مارا گیا اور دو ٹارگٹ کِلرز سمیت 14 افراد کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے بھارتی ساخت کا اسلحہ بھی برآمد کر لیا گیا۔ بعد ازاں رینجرز کے ایک ترجمان نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ایم کیو ایم نے اپنے دفتر میں بھارتی اسلحہ کیوں رکھا ہوا‍ تھا؟

رینجرز کے غیر متوقع موقف نے صورت حال کو اور کشیدہ بنا دیا۔ پھر نئے پولیس چیف شاہد حیات کی جانب سے نعمت علی رندھاوا کے قتل میں ایم کیو ایم کے کارکن کاظم عباس رضوی کی گرفتاری کے اعلان نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ شاہد حیات کے مطابق نعمت علی رندھاوا کا قتل سیاسی وجوہات کی بنا پر ٹارگٹ کِلنگ کا واقعہ ہےاور اس کی وجہ ولی خان بابر قتل کیس کی پیروی ہے۔

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضٰی بھٹو کے قتل کے کیس میں دو سال تک جیل کاٹنے والے شاہد حیات کو بعض سینئر افسران پر ترجیح دے کر کراچی پولیس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔

شاہد حیات کے بیان پر ایم کیو ایم کی جانب سے غیر معمولی ردعمل کی توقع تھی اور عام شہری ذہنی طور پر اس کے لیے مکمل طور پر تیار تھے۔ پھر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے اس مقصد کے لیے ایک پریس کانفرنس بھی بلا لی تھی۔ لیکن ذرائع کے مطابق گورنر سندھ نے مداخلت کی اور یہ پریس کانفرنس ملتوی کر دی گئی۔ اس کے بعد گورنر سندھ نے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے رابطہ کیا اور اس بارے میں اپنے تحفظات وفاقی حکومت تک پہنچائے۔ یوں کراچی ایک ممکنہ ہڑتال سے بچ گیا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار اس تمام صورت حال کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ معروف صحافی مظہر عباس کے مطابق رینجرز کے چھاپے اور پولیس چیف کی نیوز کانفرنس کا وقت بہت اہم ہے۔ آپریشن تقریباﹰ ایک ماہ سے جاری ہے۔ لیکن شاہد حیات نے اس سے پہلے کسی مخصوص کیس کے ملزمان کی گرفتاری پر کبھی پریس کانفرنس نہیں کی۔ نعمت رندھاوا کے قتل میں ملوث ملزم کی گرفتاری اور اس میں ایم کیو ایم کا نام لیا جانا معنی خیز ہیں۔

Pakistan Karatschi Stadt Polizei
اس آپریشن میں کراچی پولیس کو رینجرز کا مکمل تعاون حاصل ہےتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

کورٹ رپورٹنگ کرنے والے سینئرصحافی امین انور کے مطابق شاہد حیات ممکنہ طور پر سپریم کورٹ کو مطمئن کرنا چاہتے تھے کیونکہ سپریم کورٹ جیو ٹی وی کے رپورٹر ولی خان بابر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران اس کیس کو پولیس اور رینجرز کے لیے ٹیسٹ کیس قرار دے چکی ہے اور نعمت علی رندھاوا اسی کیس کی پیروی کررہے تھے۔ لہٰذا اس قتل میں ملوث ملزم کی گرفتاری پر شاہد حیات کی پریس کانفرنس اتنی حیران کن بھی نہیں۔

سینئر تجزیہ کار پروفیسر توصیف نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1992ء ہو، 1995ء یا پھر 1998ء ، ہر بار ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی ایسی ہی کسی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔

19 جون 1992ء کو جناح پور کی منصوبہ بندی کا الزام لگا کر نواز شریف حکومت نے فوجی آپریشن شروع کیا تو 1995ء میں بے نظیر بھٹو نے بوری بند لاشیں پھینکنے والوں کا تعلق ایم کیو ایم سے بتا کر ماورائے عدالت ہلاکتوں کا آغاز کیا اور 1998ء میں پھر نواز شریف حکومت نے سابق گورنر حکیم سعید کے قتل کو جواز بنا کر ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کی۔ مگر تینوں مرتبہ حکومتوں کو برطرف کر کے یہ آپریشن روک دیے گئے تھے۔

چند ماہرین کے بقول موجودہ حکومت کا مستقبل بھی کراچی میں جاری آپریشن سے جڑا ہوا ہے تاہم فی الحال یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کو نظر انداز کر کے امن قائم کرنا حقیقت پسندی نہیں ہو گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید