1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کی صورتحال خراب سے خراب تر

رفعت سعید، کراچی27 اگست 2013

پاکستان کی معاشی شہ رگ اور دو کروڑ سے زائد آبادی کا شہر کراچی مسلسل بدامنی کا شکار ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں ماہ 19 سے 25 اگست کے دوران صرف سات روز میں 61 افراد قتل ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19X9T
تصویر: ASIF HASSAN/AFP/Getty Images

11مئی کے انتخابات کے بعد حکومت کی تبدیلی سے وابستہ بحالی امن کی امیدیں بھی اب دم توڑتی جارہی ہیں کیونکہ انتخابات کے بعد صوبہ سندھ میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں نہ تو چہرے بدلے اور نہ پالیسی۔ وفاق میں تیسری مرتبہ وزارت عظمٰی پر فائز ہونے والے نواز شریف کی ترجیحات میں بھی بظاہر کراچی شامل نظر نہیں آ رہا۔

پولیس حکام کے مطابق قتل ہونے والوں میں سے نصف سے زائد شہر میں سیاسی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر جاری ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنے۔ لیکن سندھ کے معمر وزیر اعلٰی سید قائم علی شاہ اب بھی یہی کہتے ہیں کہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہے۔

پولیس حکام کے مطابق قتل ہونے والوں میں سے نصف سے زائد شہر میں سیاسی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر جاری ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنے
پولیس حکام کے مطابق قتل ہونے والوں میں سے نصف سے زائد شہر میں سیاسی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر جاری ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنےتصویر: picture-alliance/AP Photo

وزیر اعلٰی کہتے ہیں کہ کراچی اتنا بڑا شہر ہے اور اتنے بڑے شہر میں دو چار قتل کی وارداتیں تو ہو ہی جاتی ہیں۔ لیکن ان کا دعوٰی ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور یہ سب ان کی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

دوسری طرف گزشتہ ماہ بدامنی کے باعث لیاری سے ہجرت کر کے بدین چلے جانے والی کچھی برادری کے خاندانوں کی دو روز قبل واپسی کے ساتھ ہی لیاری ایک بار پھر بدامنی کا شکار ہو گیا ہے۔ صرف دو روز میں علاقے سے پانچ افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملی ہیں جبکہ فائرنگ، دستی بم اور راکٹ حملوں میں چار افراد جاں بحق اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

اس صورت حال کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ الطاف حسین کے اس مطالبے کے حق میں ایم کیو ایم کے اراکین نے کراچی کی صورت حال پر قومی اسمبلی سے واک آؤٹ بھی کیا ہے۔

سیاسی جماعتیں تو وزیر اعلٰی سندھ کے بیان پر کبھی مطمئن نہیں تھیں لیکن اب تو عام شہری بھی کہنے لگے ہیں کہ کہ وزیر اعلٰی خود تو محافظوں کی فوج کے پہرے میں گھر سے نکلتے ہیں، انہیں نہ ٹارگٹ کلنگ کا ڈر ہے اور نہ موبائل چھن جانے کا، ان کو تو حالات بہتر ہی نظر آئیں گے۔ شہری حیران ہیں کہ لوگ قتل اور اغوا ہو رہے ہیں، بھتہ خور پرچیاں دے رہے ہیں، دہشت گرد بم دھماکے کر رہے ہیں لیکن وزیر اعلٰی کو امن و امان کی صورت حال میں بہتری دکھائی دے رہی ہے۔

تاجر برادری بھی شہر میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے کا بیان داغنے والے وزیر اعلٰی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے حکومت کی گم شدگی کا بیان شائع کرانے پر غور کر رہی ہے۔

کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر کہتے ہیں کہ بھتہ خور تاجر برادری کے گھروں تک پہنچ چکے ہیں۔ بھتہ دینے سے انکار پر کاروبار کے بعد گھروں پر دستی بم حملے ہو رہے ہیں، بچے اغوا ہو رہے ہیں اور حد ہے کہ اب تو بیرون ملک مقیم تاجروں تک سے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے کیونکہ کاروبار تو یہیں ہے لہٰذا تاجر برادری بوریا بستر سمیٹ کر بیرون ملک جار ہی ہے۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہےتصویر: Usama1993/cc/by/sa

دبئی، ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور کے بعد اب کراچی کے تاجر سرمایے سمیت بنگلہ دیش کی جانب رواں دواں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر سے ماربل اور ریڈی میڈ گارمنٹس کا تقریباﹰ نصف کاروبار بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے اور تاجر برادری اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتی ہے کیونکہ نہ تو حکومت گزشتہ پانچ برس میں امن و امان کی صورت حال بہتر کر سکی اور نہ ہی توانائی کے بحران پر قابو پا سکی۔

کراچی میں امن و امان کی صورت حال کے باعث تازہ ترین مسئلہ پراپرٹی کی قیمتوں میں دوبارہ کمی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ 11 مئی کے انتخابات سے قبل کراچی میں پراپرٹی کی قیمت موجودہ قیمت سے 20 فیصد سے بھی زائد کم تھیں لیکن انتخابات کے بعد پراپرٹی کی قیمتیں اچانک بڑھنا شروع ہو گئی تھیں۔

پراپرٹی ڈیلرز کے مطابق قیمتوں میں اضافہ کا براہ راست تعلق حکومت کی تبدیلی سے تھا کیونکہ نہ صرف پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ افراد بلکہ شہریوں کو بھی توقع تھی کہ نئی حکومت کراچی میں قیام امن کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی لیکن دو ماہ گزر جانے کے باوجود وفاقی حکومت کی جانب سے صرف بیانات کے سوا کچھ سامنے نہیں آ سکا لہٰذا پراپرٹی ڈیلرز کی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔