پکتیکا فضائی حملہ: پاک افغان تعلقات میں مزید کشیدگی کا خدشہ
26 دسمبر 2024افغانستان کی طالبان حکومت نے گزشتہ روز پاک افغان سرحد کے قریب پاکستانی جیٹ طیاروں کے ذریعے کیے گئے فضائی حملے پر بدھ کے روز اسلام آباد سے شدید احتجاج درج کرایا، اور خبردار کیا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کے لیے سرخ لکیر ہے۔
طالبان کی وزارت دفاع نے بھی منگل کو ہونے والے حملوں کی مذمت کی اور جوابی کارروائی کی وارننگ دی۔ ایک بیان میں ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں "وحشیانہ" اور "واضح جارحیت" قرار دیا گیا۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر پاکستان کے فضائی حملے
بیان میں کہا گیا ہے کہ "امارت اسلامیہ اس بزدلانہ عمل کو بغیر جواب نہیں چھوڑے گی، بلکہ اپنی سرزمین اور خودمختاری کے دفاع کو اپنا ناقابل تنسیخ حق سمجھتی ہے۔"
کابل کی وزارت خارجہ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ "امارت اسلامیہ افغانستان کی وزارت خارجہ نے پاکستان کے ناظم الامور کو طلب کیا اور ڈیورنڈ لائن کے بالکل قریب سرحد کے پاس صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں پاکستانی فوجی طیاروں کی بمباری پر شدید احتجاجی نوٹ پیش کیا۔"
پاکستانی بمباری میں آٹھ افراد ہلاک، افغان طالبان کا الزام
بیان میں"پاکستانی فوج کی جارحیت" کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی حکومت کا ایک سفیر افغان حکومت کے حکام سے بات چیت کے لیے کابل میں تھا۔ "مخصوص حلقوں" کی طرف سے عام شہریوں کا قتل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں عدم اعتماد پیدا کرنے کی کوشش تھی۔
'تمام کمانڈرز محفوظ ہیں'، ٹی ٹی پی
افغان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے کہا کہ ان حملوں میں چار مقامات کو نشانہ بنایا گیا،اور ہلاک ہونے والے مہاجرین تھے۔
قبل ازیں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے دعویٰ کیا کہ حملوں میں 27 خواتین اور بچوں سمیت 50 افراد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ "غیر مسلح پناہ گزین" تھے جو شمال مغرب میں "پاکستان کی جارحیت" کی وجہ سے بھاگ کر افغانستان آئے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے تصاویر بھی شیئر کیں اور الزام لگایا کہ وہ مارے گئے بچوں کی ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
ٹی ٹی پی نے پاکستان کے سرکاری ذرائع کے ان دعوؤں سے اتفاق نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی میں ابو حمزی، قاری شیر زمان اور دیگر اہم کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس نے کہا کہ ان کے تمام کمانڈرز اور اس کے میڈیا سیل کے سربراہ زندہ اور محفوظ ہیں۔
ٹی ٹی پی سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس عمر میڈیا نے اپنے سربراہ چوہدری منیب الرحمان جٹ کی ویڈیو بھی پوسٹ کی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔ تاہم، ان پوسٹس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
حکومتِ پاکستان کی طرف سے فی الحال کوئی ردعمل نہیں
اگرچہ حکومتِ پاکستان یا فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر نے اس حملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ لیکن سکیورٹی ذرائع نے پکتیکا میں چار مقامات پر بمباری کی تصدیق کی تھی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یہ عسکریت پسند سرحد پار سے پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث تھے۔
اس دوران پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں دہشت گردوں کے "ناپاک عزائم" کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کی سکیورٹی فورس کے بہادروں کی تعریف کی۔ تاہم انہوں نے افغانستان نے اندر پاکستانی فضائی حملوں کا ذکر نہیں کیا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان فوج نے فضائیہ کی مدد سے یہ کارروائی کی۔ یہ کارروائی ایسے وقت کی گئی جب وزیرِ اعظم پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی محمد صادق خان ایک اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ کابل میں تھے اور انہوں نے طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں سے بات چیت کی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستانی علاقے شمالی وزیرستان کی سرحد افغان صوبے پکتیکا سے ملتی ہے۔ یہ علاقہ طویل عرصے سے عسکریت پسندی کا گڑھ رہا ہے اور نائن الیون کے بعد یہاں امریکی ڈرون حملے اور پاکستانی فوج کی کارروائی طویل عرصے تک جاری رہی تھیں۔
'پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے'
اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی تجزیہ کار سید محمد علی نے کہا کہ " ٹی ٹی پی کے حملوں کی وجہ سے پاکستان کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس نے پاکستانی فوج کو افغانستان میں باغیوں کو نشانہ بنانے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے کیونکہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی پر لگام ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔"
افغانستان میں طالبان کی 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے پاکستان اپنے مغربی سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی پر قابو پانے کی کوشش کررہا ہے۔ اسلام آباد نے کابل کے طالبان حکام پر عسکریت پسند جنگجوؤں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ کابل نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور افغان سرزمین سے غیر ملکی عسکریت پسند گروپوں کو نکالنے کا وعدہ کیا ہے۔
لیکن جولائی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے 6,500 جنگجو وہاں مقیم ہیں اور کہا گیا کہ "طالبان ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ تصور نہیں کرتے"۔
ان تازہ ترین حملوں نے اسلام آباد اور کابل کے تعلقات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ جو پاکستان کی جانب سے گزشتہ سال لاکھوں غیر دستاویزی افغان تارکین وطن کو بے دخل کرنے کی مہم کی وجہ سے پہلے ہی کشیدہ تھے۔
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)