1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: افغانستان سے 'دہشتگردوں' کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

18 جولائی 2024

پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت سے بنوں کے حملہ آوروں کے خلاف 'فوری طور سخت اور موثر کارروائی' کا مطالبہ کیا ہے۔ پیر کے روز بنوں کے خودکش حملے میں پاکستانی فوج کے آٹھ جوان ہلاک ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/4iRcD
اسلام آباد میں دفتر خارجہ
اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے نے افغان سرزمین سے مستقبل میں ہونے والے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر بھی زور دیاتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

پاکستان نے بنوں کی فوجی چھاؤنی پر ہونے والے عسکریت پسندوں کے ہلاکت خیز حملے کے بعد بدھ کے روز افغانستان کے لیے ایک سخت سفارتی تنبیہ جاری کی  اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

بنوں چھاؤنی پر حملہ، آٹھ پاکستانی سکیورٹی اہلکار ہلاک

پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو بدھ کے روز وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے نئے حملے میں متعدد افراد ہلاک

پاکستان نے افغانستان سے کیا کہا؟

پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے افغان طالبان کو سرحد پار سے ہونے والے حملوں پر اپنی ''گہری تشویش سے آگاہ'' کیا اور مطالبہ کیا کہ عبوری افغان حکومت اس ''واقعے کی مکمل تحقیقات کرے اور قصورواروں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی'' کرے۔

'اب افغانستان میں ٹی ٹی پی دہشتگردوں کا سب سے بڑا گروپ ہے' اقوام متحدہ

اسلام آباد نے افغان سرزمین سے مستقبل میں ہونے والے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر بھی زور دیا۔

پاکستان: تین واقعات میں پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک

اسلام آباد نے اپنے بیان میں بنوں میں ''دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائی'' کو حافظ گل بہادر گروپ سے منسوب کیا ہے، جو کہ ''افغانستان میں سرگرم عمل ہے اور ماضی میں بھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے۔''

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان عبوری افغان حکومت کے ساتھ مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے اور اس سے کہا ہے کہ وہ دہشت  گردوں کی جانب سے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال کو روکے اور ایسے عناصر کے خلاف موثر کارروائی کرے۔

'افغانستان میں ٹی ٹی پی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے'، پاکستان

حافظ گل بہادر گروپ پر حملے کا الزام عائد کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے کہا: ''عبوری افغان حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مکمل تحقیقات کرے اور بنوں حملے کے ذمہ داروں کے خلاف فوری، مضبوط اور موثر کارروائی کرے اور ایسے حملوں کو دوبارہ ہونے سے روکے، جس میں افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی جار ہی ہے۔''

پاکستانی طالبان اسلام آباد اور کابل کے مابین جنگی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں

بیان میں مزید کہا گیا کہ ''پاکستان نے افغانستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر اپنے شدید تحفظات کا اعادہ کیا، جو پاکستان کی سلامتی کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات دونوں برادر ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی روح کے خلاف بھی ہیں۔''

دفتر خارجہ نے کہا کہ بنوں حملہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے دہشت گردی سے لاحق ''ایک اور سنگین خطرے کی یاد دہانی'' ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات

دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں کشیدہ ہوئے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے اور دوسری وجہ بار بار کی سرحدی جھڑپیں بھی ہیں، جو حالیہ مہینوں میں ہوتی رہی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں بم دھماکے میں سات پاکستانی فوجی ہلاک

گزشتہ ماہ افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان پر برہمی کا اظہار کیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ اسلام آباد افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

افغانستان کی عبوری حکومت کے رہنماؤں نے رواں ماہ کے شروع میں دوحہ میں پاکستانی حکام کے ساتھ ایک میٹنگ بھی کی تھی، جسے ٹی ٹی پی کے خلاف تازہ کارروائی کے اعلان کے بعد کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

دوحہ کانفرنس میں طالبان وفد کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی سفارت کاروں کے ساتھ اپنی ملاقات کو ''اچھی'' قرار دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ''مثبت تعلقات'' کو فروغ دینے کی امید ظاہر بھی کی تھی۔

تاہم افغان طالبان نے عملاً ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے، جس سے یہ لگتا ہو کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف نہیں استعمال کی جائے گی۔

اس دوران اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنی اتحادی سمجھتے ہیں اور پاکستان میں حملوں کے لیے ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں) 

’پاکستانی طالبان کی واپسی خطرناک ہو گی‘