1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی میڈیا کے کردار سے عوام نالاں

24 مئی 2012

پاکستانی عوام کی اکثریت پولیس کی بدعنوانی اور جارحانہ رویے سے نالاں تو تھی ہی مگر اب لوگوں کی نجی زندگیوں میں دخل اندازی کرنے پر میڈیا بھی اُسی طرح بدنام ہوتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/151Tx
تصویر: AP

پاکستان میں نجی ٹی وی چینل مسابقت کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے لیے ایسے منفرد اور اچھوتے پروگرام پیش کر رہے ہیں جن سے ناظرین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنی جانب مائل کیا جا سکے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسی طرح کی کوششوں کے نتیجے میں ’نگران صحافت‘ کا تصور بھی فروغ پا رہا ہے جس میں میڈیا معاشرے کو مبینہ طور پر سدھارنے کے لیے نگران بننے کا کردار اپناتا جا رہا ہے۔

اس طرح کے پروگراموں کے نتیجے میں اکثر عام افراد کی نجی زندگیوں میں غیر ضروری مداخلت کی جاتی ہے۔

رواں برس جنوری میں نجی چینل سماء ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ایک مارننگ شو میں میزبان مایا خان نے ایک پارک میں گھومنے والے جوڑوں کا تعاقب کر کے ان پر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ مایا خان ٹی وی کیمرہ مینوں کے ہمراہ ان جوڑوں کا تعاقب کرتی رہیں جن میں سے اکثر وہاں سے فرار ہو گئے۔ تاہم ایک جوڑے کو انہوں نے جا لیا اور اُس پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔

اس پروگرام پر مختلف حلقوں کی جانب سے سخت نکتہ چینی کی گئی اور اُسے شتر بے مہار میڈیا کی جانب سے عوامی زندگی میں بلا ضرورت دخل اندازی قرار دیا گیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بُک اور ٹویٹر پر پانچ ہزار افراد نے اپنے ناموں سے پٹیشن میں سماء ٹی وی پر زور دیا کہ وہ مایا خان کو برطرف کرے۔

Osama bin Laden Reaktion Pakistan
پاکستانی میڈیا پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ نگران صحافت کا کردار ادا کرنے لگے ہیںتصویر: picture alliance / dpa

پاکستان کے اعتدال پسند حلقوں نے مایا خان کو برطرف کرنے کے فیصلے کی تعریف کی مگر اس وقت ان کی خوشیوں پر اوس پڑ گئی جب اے آر وائے ٹی وی چینل نے اُسے مارننگ شو کے لیے رکھ لیا۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر مہناز رحمٰن کے بقول یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس سے سماجی توازن کو خطرہ درپیش ہے۔ انہوں نے کہا: ’یہ صحافت نہیں ہے بلکہ خالص نگرانی ہے۔ یہ چیز عوام کے لیے بہتر نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کو اپنا کردار ذمہ داری سے اور تجارتی سوچ سے ہٹ کر ادا کرنا چاہیے۔

ایک ہیلتھ لیبارٹری میں کام کرنے والے غلام حیدر نے بتایا کہ دو مرتبہ دو مختلف چینلوں کے رپورٹر ان کی لیبارٹری میں آن دھمکے اور زبردستی اندر کی فلم بنانے پر اصرار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا: ’وہ آزادی ء صحافت کے نام پر انتہائی بے دھڑک طریقے سے اور بے رحمی سے ہم پر حملے کرتے ہیں۔ انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ہر جگہ جا گھستے ہیں۔‘

ڈان نیوز پر سیاسی شو کرنے والے طلعت حسین کا کہنا ہے کہ اگر میڈیا نے لوگوں کی نجی زندگیوں میں دخل اندازی اسی طرح جاری رکھی تو مارکیٹ ان کے خلاف ہو جائے گی۔

اس وقت پاکستان میں 80 سے زائد ٹی وی چینل ہیں جن میں سے نصف چوبیس گھنٹے پانچ زبانوں میں نشریات پیش کر رہے ہیں۔

(hk/aba (AFP