1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحریک طالبان پاکستان کے اہم رہنما پر ناکام ڈرون حملہ، رپورٹ

17 دسمبر 2021

انتہا پسند گروہ ٹی ٹی پی کے ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ایک گھر پر ڈرون حملہ کیا گیا، جس میں بظاہر پاکستانی طالبان کے سینیئر رہنما مولوی فقیر محمد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

https://p.dw.com/p/44QKL
افغانستان پاکستان امریکی ڈرون
فائل فوٹوتصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عسکریت پسند گروہ تحریک طالبان پاکستان کے ذرائع نے جمعرات کو کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کی سرحد کے اندر واقع مولوی فقیر محمد کے حجرے یا گیسٹ ہاؤس کے صحن میں ڈرون سے ایک میزائل داغا گیا، جو کہ پھٹنے نہیں سکا۔ اس طرح  مولوی فقیر محمد  اور ان کے ساتھی ڈرون حملے میں بچ گئے۔

ٹی ٹی پی کے اہلکار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ''تقریباﹰ ساڑھے تین بجے اچانک ایک ڈرون  فضا میں دیکھا گیا۔ ہم پریشان ہوگئے اور مولوی فقیر کو ایک محفوظ مقام پر جانے کا کہا، لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ دن کے وقت کہیں چھپنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ اطلاعات کے مطابق فقیر محمد میزائل داغے جانے سے تقریباﹰ آدھا گھنٹہ قبل ہی اپنے گھر سے گیسٹ ہاؤس کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

’پاکستانی طالبان کی واپسی خطرناک ہو گی‘

مولوی فقیر محمد کہاں ہیں؟

طالبان رہنما کے مطابق مسلح ڈرون نے جب گیسٹ ہاؤس کے ایک کمرے پر میزائل فائر کیا تو فقیر محمد وہاں سے صرف تین میٹر کے فاصلے پر موجود تھے۔ ''خوش قسمتی سے میزائل نہیں پھٹ سکا اور وہ [فقیر محمد] اور ان کے ارد گرد موجود افراد محفوظ رہے۔‘‘ ادھر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس حملے میں ٹی ٹی پی کے دو جنگجو زخمی ہوئے ہیں۔

فقیر محمد تحریک طالبان پاکستان  کے ایک سابق رہنما ہیں۔ وہ آٹھ برس تک افغانستان کی بگرام جیل میں قید تھے۔ افغان طالبان نے رواں برس پندرہ اگست کو کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ان کو رہا کردیا تھا۔

پاکستانی طالبان کے رہنما حکیم اللہ محسود کے ہلاک ہونے کی خبر
فائل فوٹو: شدت پسند گروہ تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان سے علیحدہ کام کرتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی ناکام کوشش

مولوی فقیر احمد پر مبینہ ڈرون حملے کی خبر ایسے وقت سامنے آئی ہے جب  عمران خان حکومت  اور انتہا پسند ٹی ٹی پی  کے درمیان مستقل جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے۔ عسکریت پسند تنظیم ٹی ٹی پی نے گزشتہ ہفتے تیس دن کی جنگ بندی میں توسیع کرنے سے انکار کردیا تھا۔

واضح رہے اسی مسلح گروپ نے پچھلے پندرہ برسوں میں پاکستان میں کئی دہشت گردانہ حملوں میں بے شمار سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس میں سن 2014 کا پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہولناک دہشت گردانہ حملہ بھی شامل ہے، جس میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے تقریبا ڈیڑھ سو بچے اور ٹیچرز کو ہلاک کر دیا تھا۔

افغانستان سے متصل سرحدوں پر باڑ، ٹی ٹی پی کے لیے مسئلہ؟

ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کئی سالوں سے اسلام آباد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مسلح جنگ لڑ رہی ہے اور وہ ملک میں سخت گیر اسلامی نظریات کا نفاذ چاہتے ہیں۔ یہ شدت پسند گروہ افغان طالبان سے علیحدہ کام کرتی ہے۔ ٹی ٹی پی کے جنگجو اور سینیئر رہنما طویل عرصے سے افغانستان کے مشرقی سرحدی علاقوں میں مبینہ پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ع آ / ع ح (روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں